آصف درانی

26th Feb, 2023. 09:00 am

یوکرین  جنگ میں کوئی فاتح نہیں

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

یوکرین کی جنگ کے تمام متعلقین پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ شاید روس نے یوکرین کے خلاف اپنے ’’خصوصی آپریشن‘‘ کی کامیابی کا غلط اندازہ لگایا تھا، اور اپنے سابقہ تبصروں کی نفی کردی کہ روس یوکرین کو چند ہفتوں میں شکست دے دے گا۔

یوکرین کی مزاحمت میں امریکہ اور نیٹو ریاستوں کی مدد نے تنازعہ کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سفارتی محاذ پر دونوں ممالک کے مابین جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جب کہ اس وجہ سے عالمی سطح پر توانائی اور اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بیشتر ممالک کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

امریکی اور یورپی تجزیہ کار مستقبل کا ایک تاریک منظرنامہ پیش کررہے ہیں کیونکہ یہ تنازع اب صرف روس اور یوکرین تک محدود نہیں رہا۔ امریکہ اورنیٹو ممالک نے روس اور چین کو حریف کیمپ میں شامل کرتے ہوئے ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے جب کہ باقی دنیا کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی ۔غیر رسمی طور پر دنیا کو کیمپ کی سیاست میں زبردستی دھکیلا جارہا ہے۔

21 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کی پہلی برسی کے موقع پر کیف کے اچانک دورے کے دوران صدر جو بائیڈن نے روسی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرین کی ضرورت کی واضح حمایت کی۔ انہوں نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے اضافی 500 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔

Advertisement

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر نے 5 فروری 2023ء تک یوکرین پر روس کے حملے کے دوران 7ہزار1سو55 شہری ہلاکتوں کی تصدیق کی۔ ان میں سے 4سو38 بچے ہیں۔ مزید برآں، 11ہزار6سو62 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کو 60ہزار سے 80ہزار فوجیوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تجزیہ کاروں کی ایک آزاد ٹیم اوریکس، جس نے جنگ کے دوران آلات کے نقصانات پر اوپن سورس انٹیلی جنس کا پتہ لگایا ہے، اندازہ لگایا ہے کہ 1ہزار7سو سے زائد روسی ٹینک تباہ ہوئے، انہیں نقصان پہنچایا یا وہ پکڑے گئے ہیں۔ فی الحال ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار سامنے آنا مشکل ہے۔

جرمن تھنک ٹینک کیل انسٹی ٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، نیٹو کے ارکان نے 24 جنوری سے 20 نومبر 2022ء کے درمیان کم از کم 75اعشاریہ2 ارب یورو (80اعشاریہ5 ارب ڈالر) کی مالی، انسانی اور فوجی امداد کا وعدہ کیا گیا۔47اعشاریہ 8 ارب یورو (51اعشاریہ2 ارب ڈالر) کے وعدوں کے ساتھ امریکہ یوکرین کا سب سے بڑا تعاون کرنے والا ہے، جس میں کم از کم 22اعشاریہ9 ارب یورو (24اعشاریہ5ارب ڈالر) فوجی امداد کے لیے، 15اعشاریہ05 ارب یورو (16اعشاریہ1ارب ڈالر) مالی امداد اور 9اعشاریہ9 ارب یورو (10اعشاریہ 6 ارب ڈالر )انسانی امداد مد میں ہیں۔فوجی امداد میں یوکرین کی فوج کے لیے ہتھیار، سازوسامان اور مالی امداد شامل ہے۔ انسانی امداد میں شہریوں کے لیے طبی، خوراک اور دیگر اشیاء شامل ہیں، جب کہ مالی امداد گرانٹس، قرضوں اور ضمانتوں کی شکل میں مل رہی ہے۔

مندرجہ بالا امداد، جس کی مالیت ایک سال میں تقریباً 100 ارب ڈالر ہے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ جنگ متعلقہ ممالک(اسٹیک ہولڈرز) کے لیے کتنی مہنگی ہوگی۔ پروفیسر اسٹیفن والٹ کے مطابق، جنگ کا جاری رہنا روسی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ’’روس اب ایک ایسے حریف سے لڑ رہا ہے جس کی (روس کے 1اعشاریہ8 ٹریلین ڈالر کے مقابلے) میں مجموعی جی ڈی پی 40 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے اور جس کی دفاعی صنعتیں دنیا کے سب سے مہلک ہتھیاروں کی پیداوار کررہی ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مجموعی وسائل میں یہ تفاوت یوکرین کی فتح کی ضمانت نہیں دیتا، لیکن اس نے اس چیز کو تبدیل کر دیا ہے جس کی ولادیمیر پوٹن کی توقع تھی کہ ایک مہنگی جنگ سے دستبرداری آسان ہوگی۔‘‘

بلاشبہ روس کو اس حد تک بحران کا سامنا ہے کہ اسے ایرانی ڈرون پر انحصار کرنا پڑا۔ تاہم، یہ نیٹو ممالک کے لیے یکساں طور پر ایک تجربہ کو تقویت بخشے گا، جنہوں نے نہ صرف اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے، بلکہ یوکرین کو فراہمی کیلئے اپنے فوجی ہتھیاروں کی کارکردگی کو بڑھانا پڑا۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ یوکرین  کی جاری جنگ میں آگ بھڑکانے پر بضد ہے۔ صدر جوبائیڈن کا 21 فروری کو یوکرین کا اچانک دورہ اس بات کا مضبوط اشارہ تھا کہ امریکی امداد کو کم کرنے کے لیے اندرون ملک بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود امریکا صدر ولودومیر زیلنسکی کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ جاری جنگ کے مستقبل کے واقعات کی بھی عکاسی کرتا ہے، جس میں امریکہ اور نیٹو یوکرین کے صدر ولودومیرزیلنسکی کو ہٹانے کی روسی کوششوں کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

صدر جوبائیڈن کے یوکرین کے دورے کے جواب میں صدر ولادیمیر پوتن نے جارحانہ لہجہ اپنایا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان، ریاستی حکام، فوجی کمانڈروں اور فوجیوں سے بات کرتے ہوئے ولادیمیرپوتن نے کہا کہ ’’وہ (مغرب) ہمیں تذویراتی شکست دے کر ہماری جوہری تنصیبات میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اس تناظرمیں، میں آج یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوں کہ روس اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کے معاہدے میں اپنی شرکت معطل کر رہا ہے۔ روس معاہدے سے دستبردار نہیں ہو رہا ہے بلکہ اپنی شرکت کو معطل کر رہا ہے۔‘‘

Advertisement

صدر ولادیمیر پیوٹن برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک میں استحکام لانے میں مصروف عمل ہیں۔تاہم، اگر یوکرین  جنگ جاری رہتی ہے یا اگر یوکرین روسی حکم کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے، تو عدم استحکام یقینی ہے ۔ یہ صدر ولادیمیر پیوٹن کا امریکہ کو انتباہ تھا کہ روس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔ تاہم، اگر جنگ ان کے منصوبوں کے برخلاف جاتی ہے تو صدر پیوٹن کو اپنی قیادت کے لیے ایک زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔

یوکرین میں جنگ کے جاری رہنے کا ایک اور اہم پہلو یورپی شراکت داروں کی فعال شرکت کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کے طور پر نیٹو کی بحالی ہے۔ امریکہ چاہے گا کہ نیٹو میں یورپی شراکت دار اپنی دفاعی صلاحیتیں خود بنا کر اپنی سرحدوں اور مفادات کا دفاع کریں۔ پروفیسر والٹ کا استدلال ہے کہ ’’نیٹو کے اندر بوجھ بانٹنے سے امریکہ کو ایشیا میں چین کے ساتھ توازن قائم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا، ایسا کام جو یورپ نہ تو کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کے قابل ہے۔ بتدریج امریکی عزم کو کم کرنا یہ بھی یقینی بنائے گا کہ دوبارہ مسلح کرنے کے اپنے عہد کو ترک نہ کریں اور جب یوکرین میں جنگ ختم ہو جائے تو واشنگٹن کو رقم واپس دے دیں۔‘‘

صدر پوٹن کو جنگ چھیڑنے میں ایک حکمت عملی کے ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم، نیٹو کی حمایت یافتہ یوکرین کے ساتھ جنگ شروع کرنا خطرناک ہو سکتا ہے، جس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے، اور صدر ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ 20 سال میں روسیوں کو استحکام دیا ہے۔یقینا انہوں نے یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے اپنے آپشنز کا اندازہ لگا لیا ہوگا۔

پاکستان کے لیے کورونا وبا کے بعد یوکرین جنگ مختلف وجوہات کی بنا پر خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ سفارتی سطح پر پاکستان کے غیر جانب دارانہ مؤقف کو امریکہ اور یورپی یونین نے پسند نہیں کیا، اگرچہ کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد کے عین مطابق ہے۔ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنی علاقائی پالیسی کے مفاد میں یہ موقف برقرار رکھنا چاہیے۔ تاہم، اسے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔

ابھرتی ہوئی صورتحال نے سرد جنگ کی یاد تازہ کرتے ہوئے دنیا کو تقسیم کر دیا ہے۔ معاشی محاذ پر پاکستان کسی بھی کیمپ کی مخالفت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم، روس اور امریکہ و یورپی یونین کے موقف میں فرق جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ نیٹو ممالک نے روس کی جغرافیائی تذویراتی حساسیت کو نظر انداز کرتے ہوئے یوکرین کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ روس نے اپنی سرحدوں کی جانب نیٹو کی توسیع کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا۔

Advertisement

Next OPED