
غیر ضروری ٹیکس کانفاذ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے استعفیٰ حیران کن تھا، حالانکہ سندھ حکومت نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔سپریم کورٹ کی جانب سے کے ایم سی کو کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکس وصول کرنے سے روکنے کے بعد مرتضیٰ وہاب نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا ۔بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کے ایم سی چارجز کو شامل کرنے سے ریونیو کی وصولی 160 ملین روپے سے بڑھ کر 3 اعشاریہ 25 بلین روپے ہو جائے گی،اور یہ اضافی رقم کراچی کی ترقی کے کاموں میں مددگار ثابت ہوگی ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ کراچی میں ترقیاتی کام جاری رہے ، واضح رہے کہ فیصلہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے باب ایکس سیکشن 100 (1 ) کے مطابق کیا گیا ۔
کراچی بدستور بدحالی کے دور سے گذر رہا ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کھلے مین ہولز، سیوریج کا خراب نظام اور بارش سے پیدا ہونے والے مسائل (جیسے کہ سڑکوں کا بارش کے پانی سے ڈوب جانا ) مسافروں کے لیے رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں ۔ ان مسائل کے حل کا تاحال کوئی انتظام دکھائی نہیں دے رہا ۔ جب شہر کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے پچھلے ٹیکسوں کو استعمال نہیں کیا گیا تو کے ایم سی کے ٹیکسوں سے کیا فرق پڑنا تھا ؟مرتضیٰ وہاب چاہتے تھے کہ کراچی ا لیکٹرک اور کے ایم سی ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کریں تاکہ غلطی کے کسی بھی امکان کو ختم کیا جا سکے کیونکہ کے ای کا معمول کے مطابق آڈٹ کیا جاتا ہے۔
کسی بھی بے ضابطگی کی تحقیقات نیپرا، ریگولیٹر اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے کی جائے گی جس کو کراچی ا لیکٹرک اپنی بیلنس شیٹ جمع کرائے گا۔بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس بات پر زور دیا کہ کے ایم سی کے لیے جمع کیا گیا ٹیکس ‘ان کے خزانے میں نہیں گیا ‘، بلکہ سیدھا گورننگ باڈی کے کھاتوں میں چلا گیا۔تاہم ، ریگولیٹر کو یہاں مسائل درپیش تھے۔نیپرا نے واضح کیا ہے کہ ٹیکس فیکٹر ایک قانونی معاملہ ہے جسے صرف اس صورت میں جمع کیا جا سکتا ہے جب اسے قانون کے ذریعے لازمی قرار دیا گیا ہو کیونکہ یہ ایگزیکٹو کے دائرہ کار میں نہیں آتا،لیکن کراچی ا لیکٹرک نے اس کی رضامندی کے بغیر میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز جمع کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔
سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے پہلی بار 2009ء میں کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز نافذ کیا تھا ۔اس وقت ٹیکس براہ راست کے ایم سی وصول کر رہا ہے۔تاہم ، وزیراعلیٰ سندھ نے گزشتہ سال درخواست کی تھی کہ ناکافی وصولی کی وجہ سے کے ای کے بلوں کے ذریعے ٹیکس وصول کیا جائے۔
بہت سے بجلی استعمال کرنے والے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز کے زمرے کے تحت مختلف قسم کی رقمیں وصول کرنے کے کے ای کےموجودہ طرز عمل سے اس وقت تک ناواقف تھے، جب تک کہ انہوں نے اپنے حالیہ بلوں پر (کے ایم سی) میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز کے نام سے درج اضافی چارج کو نہیں دیکھا تھا ۔کراچی والوں کو حال ہی میں ایک بڑے بحران سے گذرنا پڑا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری، بجلی کی قلت، دہشت گردی ، آلودگی، آبادی میں اضافہ اور گیس کے نرخوں میں حالیہ 300 فیصد اضافہ سمییت کئی مسائل نے شہریوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے ۔
شہری پہلے ہی پانی، امن و امان، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی مد میں ٹیکس ادا کر رہے ہیں حالانکہ ٹینکر مافیا کی وجہ سے انہیں زیادہ تر پانی خرید کر گذار ہ کرنا رہنا پڑتا ہے، شہری سڑکوں پر جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر رہنے پر مجبور ہیں ۔عوام سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت کی وجہ سے اپنے بچوں کو پرائیویٹ ا سکولوں میں داخل کرانے پر مجبور ہیں ، ناتجربہ کار ڈاکٹروں کی وجہ سے پرائیویٹ طبی اداروں میں علاج کا خرچہ برداشت کر رہے ہیں ۔
کے ایم سی کو ٹیکس وصول کرنے سے منع کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ شہریوں کے مسائل کے حل کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔اُمید کی جا سکتی ہے کہ عدلیہ کراچی کے پریشان حال مکینوں پر مہربانی کرے گی ۔