
نہ چاہتے ہوئے بھی باغی بننے والا ۔۔۔
5 فروری 2023ء کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے انتقال کے ساتھ ہی پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم دور کا خاتمہ ہو گیا۔ پرویز مشرف کو نہ چاہ کر بھی بغاوت کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وہ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے غلط اندازوں کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات کے بعد ملک کے سب سے بڑے عہدے پر جا پہنچے جنہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف اور 197 دیگر مسافروں کو لے کر آنے والے پی آئی اے کے طیارے کو ملک کے کسی بھی ہوائی اڈے پر اُترنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سرکاری دورے کے بعد سری لنکا سے واپس آرہے تھے۔ جب نواز شریف نے محلاتی سازش کے انداز میں “اپنے آدمی” کو نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی کوشش کی تو پاک فوج نے ایک ادارے کے طور پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کی حکومت کو ختم کر دیا۔ جس وقت جنرل پرویز مشرف کا جہاز کراچی میں اترا تو بمشکل سات منٹ کا ایندھن بچا تھا، فوج ملک کے ساتھ ساتھ ایئرپورٹ کو بھی محفوظ بنا چکی تھی اور نواز شریف کو اسلام آباد میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
کسی خوں ریزی کے بغیر فوجی بغاوت کو ملک بھر میں زبردست پذیرائی ملی کیونکہ لوگوں نے دو مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی برسوں کی بدعنوانی اور بدانتظامی سے تنگ آکر نئے فوجی حکمراں کا خیر مقدم کیا جس نے بڑے پیمانے پر معاشی و سیاسی اصلاحات اور بدعنوانوں کے احتساب کا وعدہ کیا تھا۔
انتہائی مشکل معاشی حالات میں کام کرنے کے لیے پُرعزم جنرل پرویز مشرف اور اُن کی ٹیم نے نئے جدید ادارے قائم کیے جن میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، قومی احتساب بیورو (نیب)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی زیرِ نگرانی ایک مؤثر اور بااختیار بلدیاتی نظام کے ذریعے مالیاتی اور انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے گئے جسے افسوسناک طور پر 2008ء میں ملک میں نام نہاد “خالص” جمہوریت کی بحالی کے بعد تباہ کر دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے، خصوصاً نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کو کھلنے کی اجازت دینے کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا۔
جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی طاقتوں سے ہاتھ ملانے کا مشکل مگر درست فیصلہ بھی لیا جس کی قیمت خود اُن کے لیے بھی معمولی نہیں تھی۔ مغرب سے اتحاد کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں انہیں متعدد قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ملکی محاذ پر اُنہوں نے عسکریت پسند گروہوں کو لگام ڈالنے کی کوشش کی اور کسی حد تک معاملات کو دوبارہ اپنی ڈگر پہ ڈالنے میں کامیاب رہے جسے بعد ازاں پاک فوج میں اُن کے جانشینوں، خاص طور پر جنرل راحیل شریف نے آگے بڑھایا۔ تاہم جنرل پرویز مشرف نے القاعدہ اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہوں اور افغان طالبان کے درمیان فرق کو برقرار رکھا۔ انہوں نے افغان طالبان سے تنازع کے پُرامن حل کے لیے بات چیت کی ضرورت کی حمایت کی جبکہ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی پالیسی کی ابتدا بھی اُنہوں نے ہی کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا نے اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے بعد بالآخر وہی کیا جو جنرل پرویز مشرف برسوں سے دہراتے رہے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلے کا بھی غیر روایتی حل نکالنے کی کوشش کی کیونکہ انہوں نے 2001ء میں انتہائی کشیدگی کے بعد بھارت کو مذاکرات کے ایک سسلے میں شامل کیا جب جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی فوجی تیاری کے دوران پاکستانی اور بھارتی افواج آمنے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ مسئلہء کشمیر کو دوبارہ عالمی منظرنامے پر لے آئے۔ جنرل پرویز مشرف جہاں بھی گئے اُنہوں نے اپنے معمول کے واضح، عقلی اور قائل کرنے والے انداز میں کشمیر کے مقدمے کی بھرپور وکالت کی۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اقتصادی محاذ پر امریکی قیادت میں نیٹو افواج سے شراکت داری کا فائدہ اٹھایا اور 1999ء میں گھٹنوں پر بیٹھ جانے والی معیشت مالی سال 05/2004ء تک ایشیا کی چوتھی تیزی سے ترقّی کرنے والی معیشت بن گئی۔ مشرف دور میں شرحِ نمو اوسطاً 6.0 فیصد سے بلند رہی کیونکہ وہ جی ڈی پی کے تناسب کو قرض سے 92 فیصد سے کم کرکے 52 فیصد تک لانے میں کامیاب رہے۔ مشرف دور میں کم مہنگائی، بلند ترقّی، ریکارڈ غیرملکی براہِ راست سرمایہ کاری اور مستحکم کرنسی کی مدد سے بڑھتی ہوئی آمدنی تھی۔
تاہم 2002ء میں سیاسی وجوہات اور بعد ازاں 2007ء میں امریکی دباؤ کے سبب جنرل پرویز مشرف کو اپنی بہت زیادہ مُشتہر احتسابی مہم پر سمجھوتہ کرنا پڑا جس نے بدعنوانی سے داغدار تمام سیاستدانوں، جو مؤثر طور پر مرکزی دھارے کی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے، کو دوبارہ سیاسی واپسی کا موقع فراہم کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے متعدد انٹرویوز میں اِسے اپنی سب سے بڑی غلطی تسلیم کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام کرنے والوں نے اُنہیں بہت سے خود ساختہ، لیکن بدعنوان جمہوریت پسندوں سے زیادہ جمہوری، جدید اور ترقّی پسند کہا۔ اُن کی شخصیت کی خصوصیت متوسط طبقے کا ایک تعلیم یافتہ فرد ہونا تھی جو اپنی فطرت میں ایک قوم پرست پاکستانی تھا۔ ایک فوجی رہنما کے طور پر وہ اپنی ہمت، عزم اور دلیری کے لیے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بہادری کے اعزازات حاصل کیے اور کارگل تنازع کے دوران وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ اوّلین محاذ پر تھے۔ اُن کا نعرہ “سب سے پہلے پاکستان” ان کے ذاتی کردار، فوجی زندگی اور سیاست کی وضاحت کرتا ہے۔ اُن کا دورِ اقتدار بہت شاندار تھا اور اُن کی زندگی قابلِ احترام تھی۔ ہم پاکستان کے قابلِ فخر فرزندان میں سے ایک، پرویز مشرف کو سلام پیش کرتے ہیں۔ الوداع جنابِ صدر!