
بدترین لمحات
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چودھری کی گرفتاری اِس ہفتے کی اہم سرخیوں میں سے ایک ہے جس نے ملک میں مسلسل بڑھتے سیاسی درجہ حرارت کو نمایاں کیا۔ صحافی سے میڈیا مالک بننے والے محسن نقوی کی بطور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب متنازع تقرری اور پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے پر اظہارِ ناراضی دیگر شہ سرخیوں میں شامل تھے۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب سے اپریل 2022ء سے زیرِالتوا پی ٹی آئی ایم این ایز کے استعفوں کو اچانک قبول کیے جانے کے متنازع فیصلے نے پہلے سے جلتی پر مزید تیل کا کام کیا۔ حکومت اور ای سی پی کی طرف سے اٹھائے گئے ان تمام اقدامات نے ملک کے تیزی سے بگڑتے اقتصادی اشاریوں کے پس منظر میں سیاسی محاذ آرائی کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اس قسم کی فیصلہ سازی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ملک کو اِس طویل سیاسی محاذ آرائی اور اِسے درپیش عظیم اقتصادی مشکلات کی قیمت سے قطعاً غافل ہے۔
جمعرات اور جمعہ کو دو براہِ راست سیشن کے دوران روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ، پہلے ہی 24.5 فیصد کی کمر توڑ سطح پر منڈلاتی افراطِ زر میں 35 فیصد اور اس سے اوپر کے خطرناک نشان تک مزید اضافے کے لیے تیار ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو مزید 17 فیصد کرنے کا فیصلہ بھی معاشی سرگرمیوں کو دبانے اور منجمد کرنے کے لیے تیار ہے جو پہلے ہی زوال کا شکار ہیں۔ لیکن شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت کی تمام تر توجہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اس ساری معاشی خرابی کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی بجائے، اپنی واحد سیاسی مخالف یعنی پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے اور سزا دینے پر مرکوز ہے۔ ایسا کرتے ہوئے حکومت ہر جمہوری اصول اور کنونشن کو پامال کر رہی ہے اور آئین میں دیے گئے بہت سے بنیادی حقوق کو پامال کر رہی ہے۔ درحقیقت یہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بدترین لمحات ہیں کیونکہ بدعنوانی سے داغدار کچھ سیاسی خاندان جمہوریت کے لبادے میں قابلِ اعتراض ذرائع کے ذریعے اِن پر مسلط ہیں۔
کیوں بہت سے پاکستانی موجودہ سیاسی نظام اور اشرافیہ کی، اشرافیہ کے لیے اور اشرافیہ کے ذریعے اِس نام نہاد جمہوریت سے مایوس ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نظام شہری سندھ میں آزادانہ اور منصفانہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں بھی ناکام رہا۔ متنازع حد بندی سے لے کر انتخابی ایام کی دھاندلی اور انتخابات کے بعد کی جوڑ توڑ تک، صوبائی حکمراں جماعت نے سازگار نتائج حاصل کرنے کے لیے تمام تر حربے آزما ڈالے۔
یہ اب قومی سطح پر ایک عیاں راز ہے کہ حکومت ہر قیمت پر انتخابات سے بچنا چاہتی ہے اور ریاستی مشینری کو استعمال کرکے مخالفین کو کچلنا چاہتی ہے۔ فواد چودھری کی گرفتاری عمران خان اور اُن کی تحریک انصاف کے لیے آزمائش کی گھڑی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت عمران خان کو بھی گرفتار کرنے اور کسی بھی احتجاج سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرب المثل سے کھلواڑ کر رہی ہے لیکن ریاستی اداروں سمیت حکومت میں شامل افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر ایک عمل اور استحصال کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب اشرافیہ کی طاقت کو برقرار رکھنے اور عوام کو اپنی من پسند حکومت منتخب کرنے کے حق سے انکار کے لیے کارروائی اور جوڑ توڑ کی جاتی ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی کئی بار اس نہج تک آیا ہے اور اس سبب اسے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ نئے ہتھکنڈوں کے باوجود پرانے آزمودہ، آزمائشی اور ناکام تجربات کا اعادہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ کیا پاکستان ایک بار پھر اس الجھن میں پڑنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ شاید بڑا سوال یہی ہے کہ ایسا کیوں کرنا چاہیے؟
پاکستان کو اقتدار کی ہر سطح پر وہی گھسے پٹے پرانے چہروں، سیاسی خاندانوں اور وراثتوں کی ضرورت نہیں۔ اس کی ضرورت ملک کے لیے تعلیم یافتہ اور پیشہ ور، متوسّط اور نچلے متوسّط طبقے کے افراد ہیں جنہوں نے ایسی نمائندگی اور اصلاحات کی ہیں جو اسمبلیوں اور فیصلہ سازی کے فورمز میں مزدوروں اور کسانوں کی حقیقی نمائندگی کی راہ ہموار کر سکیں۔ تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت حقیقی معنوں میں اپنے شہریوں کی نمائندہ ہے اور عوام کے خلاف کام کرنے کی بجائے اِن کے لیے کام کرتی ہے۔ تاہم پاکستانی اشرافیہ درست سمت میں آگے بڑھنے کی بجائے 21 ویں صدی کے پاکستان میں 20 ویں صدی کی جوڑ توڑ کی سیاست کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ لیکن خاندانی سیاست دانوں کی حرکات تبدیلی کے پہیے کو گھومنے سے نہیں روک سکتیں اور موجودہ حالات میں یہ سفر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے مطالبے اور حزبِ مخالف، پی ٹی آئی اور تمام اختلافی آوازوں کو اپنی آواز سنانے کی اجازت دینے سے شروع ہوتا ہے۔ کیا اِس پاک سرزمین پر یہ مطالبہ کافی زیادہ ہے؟