25th Dec, 2022. 09:00 am

ایک نہ ختم ہونے والا بحران

ہم سب 2022 ء کو الوداع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں مگر پاکستان کے سیاسی بحران کے خاتمے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ درحقیقت، یہ بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ اہم سیاسی اسٹیک ہولڈرز بدستور محاذ آرائی کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں، جس سے پورے نظام کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ شہباز شریف حکومت کے مقرر کردہ گورنر پنجاب نے صوبائی وزیر اعلیٰ کو ’ڈی نوٹیفائی‘ کرکے اور ان کی کابینہ تحلیل کرکے ملک اور جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی۔ لاہور ہائی کورٹ نے جمعہ کو پہلی ہی سماعت میں چوہدری پرویز الٰہی کو صوبائی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بحال کر کے درست کام کیا۔ تاہم، وزیراعلیٰ کو یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ وہ اگلی سماعت تک پنجاب اسمبلی کو تحلیل نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کو فی الوقت روک دیا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سیاسی بحران ختم ہو گیا ہے۔ درحقیقت یہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے اور آنے والے دنوں میں قوم کو اضطراب میں مبتلا رکھے گا۔

سیاسی معاملے کا عدالت میں فیصلہ ہونا ہی سیاسی عمل اور نظام کی مکمل ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ تمام سیاسی اور آئینی معاملات اعلیٰ عدلیہ کے سامنے آ رہے ہیں جس نے ایک طرح سے پارلیمنٹ کو بے کار کر دیا ہے۔ کیا پھر ہمارے سیاست دانوں کو اپنے لیے سکڑتی ہوئی جگہ اور اداروں کے بڑھتے ہوئے کردار کی شکایت کرنی چاہیے؟ نہیں۔

عدلیہ اور فوج سمیت ادارے اس وقت کارروائی پر مجبور ہوتے ہیں جب منتخب قیادت انہیں اپنی خود غرض پالیسیوں، نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے ایسا کرنے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں 2022 ء کے اوائل سے جاری سیاسی عدم استحکام معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے اور اس نے پورے نظام پر لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ یہ اب قومی سلامتی کا چیلنج بن چکا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کا سیاسی اور آئینی بحران ایک کھلی محاذ آرائی میں تبدیل ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتا ہے جو کہ ملک کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ لہذا، اب عمل کرنے کا وقت ہے۔

لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آپشنز کیا ہیں؟ اگر اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف حکومت کی حمایت کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ اس عوامی لہر کے خلاف ہوگا جو کرپشن زدہ سیاست دانوں کے خلاف ہے۔ 21ویں صدی کے پاکستان پر 1990 ء کی دہائی سے ناکام ہونے والے سیاست دانوں کو مسلط کرنے کا خیال خودکشی کے مترادف ہے۔ اس سے اداروں کا امیج بھی خراب ہوگا۔ پاکستانی کسی بھی صورت میں اپنی مسلح افواج کو بدعنوانوں کا محافظ اور سرپرست نہیں دیکھنا چاہتے۔ فوجی قیادت کو اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جب سے پی ڈی ایم حکومت اس سال اپریل میں برسراقتدار آئی ہے، معیشت زوال پذیر ہے اور عوام کا، یہاں تک کہ ریاست پر بھی اعتماد ختم ہوتا جاہا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے لیے دوسرا اور سمجھدار آپشن یہ ہے کہ متحارب سیاسی فریقوں کو ایک ایسا حل تلاش کرنے میں مدد دی جائے جس سے ملک آگے بڑھ سکے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں۔ قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مطالبے پر پورا اترنے یا معزول وزیراعظم عمران خان پر احسان کرنے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ اس سیاسی گڑبڑ سے نکلنے کے ایک عملی راستے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

Advertisement

صرف ایک مضبوط، مستحکم اور مقبول حکومت ہی وہ سخت فیصلے لے سکتی ہے جن کی ملک کو اپنی معیشت کی بحالی اور ریاست کو قابل عمل بنانے کے لیے ضرورت ہے۔ پاکستان صرف لگی آگ بجھانے کے نمائشی اقدامات کے ذریعے اور یہاں یا وہاں سے چند ارب ڈالر قرض لے کر محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ملک کو اب بنیاد پرست عوام نواز اصلاحات کی ضرورت ہے جو کئی دہائیوں سے التوا میں ہیں۔ اور ان اصلاحات کی ضرورت صرف معیشت نہیں بلکہ سیاسی معاملات کو چلانے کے لیے بھی ہے۔

بدعنوانی سے لڑنا اور سزا دینا، محنت کشوں اور متوسط طبقے کو سیاسی طور پر بااختیار بنانا، پارلیمنٹ کو جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور امیروں پر مشتمل اشرافیہ کے چنگل سے آزاد کرانا، مقامی حکومتوں کو بااختیار بنا کر نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی، نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو نفع بخش اداروں میں تبدیل کرنا سب کے لیے میرٹ پر یکساں تعلیم کے مواقع کو یقینی بنانا ، یہ پاکستان کے لیے ناگزیر ایجنڈے میں شامل وہ کچھ اقدامات ہیں جن پر عمل ہونا چاہیے۔

پاکستانی عوام اس قسم کی تبدیلی کے لیے بھرپور تیاری کر رہے ہیں، لیکن کیا فیصلہ ساز اس قابل بھی ہیں کہ وقت کے اشارے کو سمجھ سکیں اور نوشتہ دیوار پڑھ سکیں؟

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ