01st Jan, 2023. 09:00 am

نگراں سیٹ اپ

ٹیکنو کریٹس پر مشتمل نگراں حکومت کے قیام کی قیاس آرائیوں کے درمیان پاکستان نئے سال میں داخل ہو رہا ہے۔ جہاں حزب اختلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس خیال کو یکسر مسترد کر دیا ہے، وہاں بہت سے سرکردہ ماہرین اور سول سوسائٹی کے ارکان ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب پاکستان مسلسل جاری رہنے والے گمبھیر سیاسی اور معاشی بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے، وہاں ملک کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی رہ گیا ہے۔ اگرچہ کوئی بھی سیاسی کھلاڑی یا ادارہ قدرے طویل مدتی مینڈیٹ ) بدقسمتی سے جسے کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہوگا(والے نگراں سیٹ اپ سے متعلق افواہوں کی ذمے داری قبول کرتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا، لیکن جو لوگ اس معاملے کو آگے بڑھا رہے ہیں ان کے پاس موجودہ سیٹ اپ کے خلاف کچھ مضبوط دلائل ہیں۔

سب سے پہلے، ایک ایسی حکومت جو اگلے عام انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہے ) چاہے وہ جلد ہوں یا وقت پر، اکتوبر یا نومبر 2023 تک ( اس نازک موڑ پر پاکستان کو درکار تکلیف دہ معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحات نہیں کرے گی۔ پہلے ہی، شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت کی جانب سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سرپرستی میں آئی ایم ایف کے رکے ہوئے پروگرام کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے کیے گئے ادھورے اقدامات کو نہ صرف عوام اور اپوزیشن بلکہ حکمران اتحاد کے اندر سے بھی کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مفتاح کی وزارت خزانہ سے علیحدگی کے بعد، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) معیشت کو چلانے کے لیے اپنے نام نہاد اقتصادی جادوگر اسحاق ڈار کو لے آئی۔ لیکن اسحاق ڈار کی جادوگری نے نہ صرف آئی ایم ایف پروگرام کو ایک بار پھر روک دیا، بلکہ ان کے مالیاتی کرتبوں نے پاکستان کو ایک بڑے معاشی بحران میں ڈال دیا، جس سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نظر نہیں آتا۔

لہذا، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت سے اقتدار کے بقیہ چند مہینوں ) زیادہ سے زیادہ آٹھ( میں کسی بھی بامعنی اصلاحات کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔ اس حکومت کو اصلاحات کرنے پر مجبور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے طویل مینڈیٹ مل جائے، جو کہ عام انتخابات کو ایک یا دو سال تک موخر کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ یہ پی ڈی ایم کے کچھ بڑے لوگوں کی خواہش ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی حکومت کو اسحاق ڈار کی قسم کے معاشی انتظام کو ختم کرنا ہوگا اور مالیاتی منتظمین کے ایک نئے سیٹ کے تحت اصلاحات پر زور دینا ہوگا۔ یہ کام چار وجوہات کی بنا پر ہونا مشکل ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اسحاق ڈار کے علاوہ کوئی بھی معیشت چلانے کا اہل نظر نہیں آتا کیونکہ وہ صرف تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے قریبی ساتھی نہیں ہیں بلکہ ان کے بیٹے کی شادی بھی خود ساختہ جلاوطن سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی سے ہوئی ہے۔ جب خاندانی مفادات اس قدر جڑے ہوئے ہوں تو عقلی اور معروضی فیصلہ سازی کے لیے شاید ہی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

فوری نگراں سیٹ اپ کا مطالبہ کرنے والوں کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت  اپنے سرکردہ رہنماؤں پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کی وجہ سے عوام کا اعتماد اور اپنی ساکھ کھوچکی ہے۔ ساکھ اور مقبولیت سے محروم حکومت شاید ہی اس پوزیشن میں ہو کہ وہ اصلاحات کر سکے، اور اگر ایسا کرتی ہے تو اسے عام لوگوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تیسری وجہ یہ کہ ایک نامکمل قومی اسمبلی (این اے) کے ساتھ، جہاں یک طرفہ اور خود غرض قانون سازی کی جا رہی ہے، وہاں سیاسی استحکام کی توقع رکھنا اور اصلاحات کے کسی ایجنڈے کو آگے بڑھانا نہ صرف ناقابل عمل ہے، بلکہ ناقابل تصور بھی ہے۔ اور چوتھی بات، عمران خان، باوجود اس کے کہ ان کی حکومت مخالف مہم نے اپنا زور کھو دیا ہے، وہ حکومت کے لیے ایک مضبوط چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت کہ عمران خان اور ان کی پارٹی قومی اسمبلی سے باہر رہنے کی ترجیح دے رہی ہے اور مسلسل احتجاج کے موڈ میں ہے، حکومت کو دباؤ میں اور بے چین رکھے گی۔ ان حالات میں ٹیکنو کریٹس کی سربراہی میں نگراں حکومت کا قیام متحارب سیاسی مفاد پرست گروہوں کے درمیان جاری محاذ آرائی میں تعطل پیدا کرنے والے عنصر کا کام کر سکتا ہے اور صورتحال کی سنگینی کو کم کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔

Advertisement

پی ڈی ایم کے لیے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے، عوام کی کمزور یادداشت کے پیش نظر ، اپنی سیاسی قسمت کو بحال کرنے کے لیے کچھ وقت مل جائے گا۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے، تو عمران خان کے اہم دشمن- شریف، زرداری اور فضل الرحمان- ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں رہیں گے۔ نگراں حکمران معیشت کی بحالی کے لیے درکار تمام سخت معاشی فیصلے لے سکتے ہیں اور اگلے عام انتخابات کے شفاف اور منصفانہ انعقاد کے لیے سازگار ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم، یہاں پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، یعنی ان نگرانوں کا فیصلہ کون کرے گا جو دونوں سیاسی حریفوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ نگراں سیٹ اپ کو تین ماہ کے مینڈیٹ سے آگے قانونی اور آئینی تحفظ کیسے دیا جائے۔ اس موڑ پر شاید عدلیہ کچھ کرسکتی ہے۔

یہ سب کچھ فی الحال خواہش مندانہ سوچ اور قیاس آرائیاں ہیں، جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں اور نہ ہی انہیں فیصلہ کن طاقتوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ تاہم، ان غیر معمولی حالات میں، جب کچھ بھی کارآمد نہ ہو، تو یہ آخری آپشن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے پر سنجیدگی سے غور اور عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔

ہاں، 2023 ء پاکستان کو اس کی تمام تر غیر یقینی صورتحال اور درپیش خطرات کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے۔ اس کے باوجود، خواہش ہے کہ نیا سال مبارک ثابت ہو!

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ