22nd Jan, 2023. 09:00 am

کشمیر سے غداری

وزیر اعظم شہباز شریف نے 16 جنوری کو دبئی میں قائم العربیہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حساس معاملے پر بلاسوچے سمجھے اور شرم ناک بیان دے کر کشمیر کاز کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ شہباز شریف نے حقیقتاً ہندوستان کی انتہا پسند حکومت سے مذاکرات کی بھیک مانگی حالانکہ اس وقت نئی دہلی میں کوئی امن پر گفت و شنید کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات سے ان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تین جنگیں لڑنے کے بعد سبق سیکھ چکا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے ان خیالات کے اظہار کے بعد یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہندوستانی میڈیا نے یوم جشن منایا اور پاکستان کی خوب تضحیک کی، جب کہ ہمارے دفتر خارجہ کو واضح کرنا پڑا کہ کشمیر یا ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جو نئی دہلی کی جانب سے 5 اگست 2019 کو متنازعہ ہمالیائی خطے میں کیے گئے یک طرفہ اقدام کو واپس لینے سے مشروط ہے۔ وزیر اعظم کے خیالات سے کشمیریوں کو بھی دھچکا پہنچا، جو وحشیانہ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا غیر ذمہ دارانہ مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی نام نہاد قومی قیادت دشمن کے عزائم، مقبوضہ کشمیر میں اس کے مظالم اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک سے کتنی غافل اور لاتعلق ہے۔ اس سے وزیراعظم ہاؤس اور دفتر خارجہ کے درمیان رابطہ نہ ہونے کی بھی نشاندہی ہوتی ہے جو تشویش ناک بات ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت نے متنازعہ مسلم اکثریتی خطے کو بھارتی مرکزی حکومت کے زیرانتظام یونین علاقے کا حصہ بنا دیا اور اس کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر بھارتی شہریوں کو وہاں بسنے کی اجازت دے دی۔ نریندرمودی نے یہ اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اقدامات سے بھارتی آئین میں کشمیری عوام کو دی گئی معمولی آئینی ضمانتیں بھی منسوخ کردی گئیں۔

 موجودہ وزیراعظم کے موقف کے برعکس سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے یہ کم از کم موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت کے ساتھ اس وقت تک مذاکرات نہیں ہوسکتےجب تک کہ وہ ان یکطرفہ اقدامات کو منسوخ نہیں کر دیتی۔ عمران خان کی حکومت نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی محدود کردیے تھے اور اس کے ساتھ معمول کی تجارت پر پابندی لگا دی تھی۔ تاہم، ملک کی حکمران اشرافیہ کے اندر ایک مضبوط لابی، بشمول میڈیا، بھارت کی طرف سے کھینچی گئی نئی سرخ لکیروں کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کو یک طرفہ طور پر اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران بھی بعض وزراء نے ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی لیکن کابینہ کے دیگر ارکان کی جانب سے سخت مخالفت کی حمایت میں شدید عوامی ردعمل نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ شہباز شریف حکومت کی جانب سے سیلاب کا بہانہ بنا کر ایک بار پھر بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کی کوشش کی گئی۔ عوامی ردعمل کی وجہ سے اس اقدام کو دوبارہ روکنا پڑا۔

وزیراعظم کے ریمارکس کو شریف خاندان کی نئی دہلی کو کشمیر کاز کی قیمت پر خوش کرنے کی تاریخ کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔ سابق سزا یافتہ وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کو یک طرفہ رعایتیں دینے کے لیے نہ صرف غیرمعمولی راستہ اختیار کیا بلکہ اپنے میزبانوں کو خوش کرنے کے لیے حریت قیادت سے ملنے سے بھی انکار کر دیا۔ کشمیر کاز کے ساتھ ان کی غداری کو ہندوستان میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے اپنی مشہور کتاب ‘Hostility’ میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا ، اگر شہباز شریف اپنے بھائی کی صف میں کھڑے ہو کر حکومت میں سب سے اہم عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے یہ ریمارکس کہ پاکستان بھارت سے جنگوں کے بعد سبق سیکھ چکا ہے، نہ صرف اس شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں جسے وہ پاکستانیوں میں ابھارنا چاہتے ہیں، بلکہ ان ریمارکس کو خود وزیراعظم کی جانب سے اس اعتراف کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے جنگیں شروع کیں۔

تاریخ وزیراعظم شہبازشریف کے موقف کو جھٹلاتی ہے۔ یہ بھارت ہی تھا جس نے پاکستان پر جنگ مسلط کی تھی خواہ وہ 1948ء کی جنگ تھی، 1965 ء یا پھر 1971 ء کی جنگ۔ بھارت نے جس طرح کشمیر پر اس کے باشندوں کی مرضی کے خلاف قبضہ کیا وہ اصل جرم ہے جو دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا کررہا ہے۔ یہ تنازع اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور حل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک ہندو انتہا پسند رہنما اسے یکطرفہ طور پر بھارت کے حق میں طے کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ کبھی بھی علاقائی تنازعہ نہیں رہا بلکہ تنازع تمام بین الاقوامی قوانین کے تحت تسلیم کردہ کشمیریوں کی مرضی اور ووٹ کے بنیادی حق کو قبول کرنے پر ہے مسئلہ کشمیر کو ہندوستان کی شرائط پر صرف اس لیے حل نہیں کیا جا سکتا کہ چند بزدل اور کمزور سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس عظیم مقصد سے غداری کرنے کے لیے تیار ہیں۔کوئی بھی ریاست اپنی لمحاتی کمزوریوں کی وجہ سے اپنے طویل المدتی مفادات کو قربان نہیں کرتی۔

Advertisement

آج پاکستان کی معیشت حقیقتاً زبوں حالی اور اس کی سیاست بحران کا شکار ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حالات تبدیل نہیں ہو سکتے اور نہ ہوں گے۔ صرف ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیر کا مقدمہ لڑ اور جیت سکتا ہے۔ لیکن اس وقت تک اس مسئلے کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ