
عدلیہ پر حملے
پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ حملوں کی زد میں ہے۔ سپریم کورٹ اور صوبائی ہائی کورٹس کے معزز ججوں کی شبیہہ کو خراب کرنے کے لیے شہباز شریف حکومت میں شامل کچھ اہم شخصیات کی جانب سے بدنامی کی منظم مہم چلائی گئی ہے۔ سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی وارث مریم نواز معزز ججوں کے خلاف شروع کیے جانے والے پراپیگنڈے کا چہرہ ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کا اتحادی میڈیا اور یہاں تک کہ وکلاء برادری کا ایک حصہ اس بدقسمت توہین آمیز مہم کے گماشتوں کے طور پر کام کرتے ہوئے ماضی اور حال کے اُن ججوں کو نشانہ بنا رہا ہے جنہوں نے بدعنوان سرکاری عہدیداروں، جن میں شریف خاندان اور ان کے کچھ قریبی ساتھی بھی شامل ہیں، کے خلاف مؤقف اختیار کیا۔
اپنے فرض کی انجام دہی اور انصاف کی فراہمی کے لیے اب حق پہ قائم ججوں کو مریم نواز اور اُن کے ساتھی جلسوں میں کھلے عام نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان جلسوں میں ججوں کی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں جن میں مقررین، خاص طور پر مریم، اِنہیں کھلم کھلا دھمکیاں دیتی اور تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہ پاکستانی سیاست کی نئی پستی ہے جس میں حکمراں جماعت اعلیٰ عدلیہ کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عدلیہ مخالف اس مہم کے مقاصد واضح ہیں۔
سب سے پہلے تو شریف ٹولہ نہ صرف سپریم کورٹ اور صوبائی ہائی کورٹ کے ججوں بلکہ اُن اعلیٰ فوجی حکام سے بھی پرانے حساب کتاب چُکانا چاہتا ہے جنہوں نے پاکستان کو خاندانی جاگیر میں تبدیل کرنے کی کوششوں کو چیلنج کرنے اور روکنے کی جرات کی۔ مگر جبکہ شریف ٹولہ فی الحال افراد کو نشانہ بنا رہا ہے، اُس کا اصل مقصد دو اہم اداروں یعنی پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ پر غلبہ حاصل کرنا اور انہیں بدعنوان سیاسی نظام کے تابع بنانا ہے۔ اگرچہ نواز شریف کا سیاست میں عروج سابق فوجی حکمراں جنرل ضیاءالحق کا مرہون منت ہے لیکن پورا خاندان فوج کے خلاف ایک ایسے ادارے کے طور پر شدید رنجش رکھتا ہے جس نے بھارت کو یک طرفہ رعایت دینے میں نہ صرف اِس کی چالوں کا مقابلہ کیا بلکہ اِس کی بدعنوانی کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش بھی کی۔ نواز شریف اقتدار سے اپنی تین بے دخلیوں کا ذمے دار فوج اور عدلیہ کو ٹھہراتے ہیں۔ جب وہ اور اُن کے سیاسی وارث فی الحال ان دونوں اداروں کے حکام کو نشانہ بنا رہے ہیں، وہ حتمی طور پر اِن کے خلاف محاذ کھولیں گے۔ فوج اور اعلیٰ عدلیہ کو شریف خاندان کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
دوم، موجودہ سیاسی تناظر میں حکمراں اتحاد، بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی قیادت پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبوں میں صوبائی انتخابات کے انعقاد کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے جو کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دنوں میں کرائے جانے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) یہ اشارہ دے رہی ہے کہ وہ قبل از وقت انعقاد تو دُور، 2023ء میں شیڈول کے مطابق بھی عام انتخابات نہیں چاہتی اور وہ انتخابات سے بچنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ تاہم جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) حکومت کے اشاروں پر ناچ رہا ہے، اِسے خدشہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے گی اور امکان ہے کہ وہ آئین میں لازمی قرار دیے گئے انتخابات پر زور دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایک ایسے وقت میں معزز ججوں کے خلاف آگ اُگل رہی ہے جب چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ مختلف حالات میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمے داری اور اختیار کس کے پاس ہے، ازخود نوٹس لیا ہے۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ جہاں پوری قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے جس کے فیصلے سے آئین میں بیان کردہ انتخابات کے لیے راہ ہموار ہونے کا امکان ہے، مسلم لیگ (ن) عدالت پر دباؤ ڈالنے اور انصاف کو اپنا راستہ اختیار کرنے سے روکنے کی کوشش میں منتخب ججوں کو انفرادی طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔
حکومت کے گھناؤنے ہتھکنڈے ملک کو ایک بڑے اور سنگین سیاسی و آئینی بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں جس میں نظام کو پٹڑی سے اتارنے اور ملک میں انتشار اور بے یقینی جیسی صورتحال پیدا کرنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس منظر نامے سے بچنے کا واحد راستہ آئین کی پاسداری اور ملک کو مرکز اور صوبائی سطح پر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف لے جانا ہے۔ بول میڈیا گروپ ہر اُس کوشش کی مذمت کرتا ہے جس کا مقصد اعلیٰ عدلیہ کی شبیہہ کو مجروح کرنا ہے اور ملک میں قانون اور آئین کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ بروقت انتخابات ایک آئینی ذمے داری ہیں جو موجودہ حالات میں سیاسی تعطل کو توڑنے اور ملک کو آگے لے جانے کا راستہ پیش کرتے ہیں۔