
ہجوم کے ہاتھوں ظالمانہ قتل
گزشتہ ہفتے کو تقریباً 800 افراد پر مشتمل ہجوم نے پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں توہینِ مذہب کے الزام میں ایک شخص کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ پُرتشدد خونی جرم پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا ہے اور ملک میں دائیں بازو کو حاصل استثنیٰ کو دیکھتے ہوئے یہ آخری بھی نہیں ہوگا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کے آخری بار ہونے کی کتنی خواہش اور امید رکھتے ہیں۔ دوسری بار جرم کا الزام لگائے والے شخص، جس کی شناخت صرف وارث کے نام سے ہوئی ہے، کو حال ہی میں عدالت کی جانب سے انہی الزامات سے بری کیا گیا تھا اور اسے چھ ماہ قبل جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ جب ہجوم نے حملہ کیا تو متاثرہ شخص پولیس کی تحویل میں تھا۔ ہجوم میں شامل افراد واربرٹن تھانے میں موجود تھوڑے سے پولیس اہلکاروں پر قابو پانے اور ملزم کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس شخص کو برہنہ حالت میں سڑکوں پر گھسیٹنے اور وحشیانہ حملے کا نشانہ بنائے جانے کی پریشان کن وڈیوز سوشل میڈیا میں پھیلی ہوئی ہیں جب کہ پولیس اہلکار بے بس نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے بہت سے ملزمان جس ہولناک انجام تک پہنچے وہ کسی سے، خصوصاً قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پوشیدہ نہیں۔ خبریں بتاتی ہیں کہ پولیس کو چند دنوں کے دوران قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے شخص کے حوالے سے متعدد فون کال موصول ہوئی تھیں۔ اس طرح سے اس حساس معاملے سے نمٹنے میں پولیس کی نااہلی اور نالائقی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ہم نے بارہا پولیس افسران کو اس واقعے کے بعد وضاحتیں پیش کرتے دیکھا ہے کہ وہ کس طرح ایک قیدی کی حفاظت نہ کر سکے۔ دن دیہاڑے اس خاص قتل پر ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدار نے مرکزی داخلی دروازے پر تین فٹ چوڑا سوراخ چھوڑا تھا جس میں سے کچھ مشتعل افراد اندر داخل ہونے اور تھانے کے دروازے کھولنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح مزید نفری کے لیے کال پہلے ہی کی جا چکی تھی لیکن وہ اُس آدمی کے مرنے کے بعد ہی پہنچی۔ اِن کی واحد کامیابی اُس کے جسم کو جلائے جانے سے بچانا ہے۔
یہ کہنا کہ پولیس کی ناکامی اُس بڑے مسئلے کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کا بڑا سبب انتہا پسند افراد اور تنظیموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ریاست کی ناکامی ہے۔
صورتحال میں تضاد یہ ہے کہ جہاں منتخب متشدّد انتہاپسند گروہوں کو متواتر کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں دیگر افراد استثنیٰ سے فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اس سے ریاست اور اس کے اداروں کی کمزوری اور شاید سیاسی عزم کی کمی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بہت سے معاملات میں ملے جلے اشارے اور خوشامدی پالیسی متشدّد انتہا پسند قوّتوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ عوام میں عقلی اور ترقّی پسند گفتگو کرنے کی کوششوں کو اکثر شدت پسند قوّتوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حقیقت کہ مشال خان نامی طالب علم کو ساتھی طلباء نے محض اختلافِ رائے کی بناء پر یونیورسٹی کے احاطے میں قتل کر دیا، تاریک سوچ کی گہرائیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جس تک ہم بحیثیتِ معاشرہ پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ سے لے کر تعلیمی اداروں تک، حتٰی کہ مقدس عبادت گاہوں کو بھی عدم برداشت اور مُنافرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے تو کیا ہی کہنے! یہ جاننا مشکل ہوگا کہ ان میں سے کس نے توہین مذہب کے بیانیے اور قوانین کا غلط استعمال نہیں کیا تاکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو دوسرے راستے کی بجائے حریفوں کے خلاف آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
دو پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے اور اب تک کم از کم 60 افراد کو اس خوفناک قتل کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ واقعے کی وڈیوز فارینزک کے لیے بھیج دی گئی ہیں اور مذمت بھی کی جا چکی ہے۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟ واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا اور اب اس بارے میں شاید ہی بات ہو رہی ہو۔ مٹھی بھر باضمیر افراد اگلے چند ماہ تک عدالت میں ہونے والی کارروائیوں کی تضحیک آمیز کوریج دیکھتے رہیں گے۔ اِن میں سے چند ہی مقدمے کو منطقی انجام، اقدامِ قتل اور موت کی کچھ سزاؤں تک پہنچتے دیکھیں گے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ اور پھر کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق چلتا رہے گا جب تک کہ توہینِ مذہب کے ایک اور ملزم کو بے رحمی سے مار مار کر ہلاک نہ کر دیا جائے۔
اگر حکام اس اذیت ناک انداز کو حقیقتاً ختم کرنا چاہتے ہیں تو بہت کچھ اور برسوں تک کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری عمارتوں میں اور اِن کے باہر رجعت پسندانہ پالیسیوں پر مشکل مگر ضروری مُباحثے منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنے اور انہیں منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں تنقیدی سوچ اور رواداری پیدا کرنے کے لیے ہمارے تعلیمی نظام اور نصاب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم اِسی راستے پر چلتے رہیں گے۔