15th Jan, 2023. 09:00 am

گندم اور آٹے کا بحران

حکومت کو گندم کے بحران کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔ مہینوں سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا، خاص طور پر 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد۔ لیکن حکومت نے پھر بھی آخری لمحات تک نہ تو گندم کی اِمدادی قیمت کا بروقت اعلان کرکے اور نہ ہی اِس کی فوری درآمد کا بندوبست کرکے بحران کو بڑھاوا دیا۔ سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیش آنے والا افسوسناک واقعہ جہاں رعایتی نرخوں پر آٹا خریدنے کی کوشش کے دوران بھگدڑ مچنے سے ایک شخص جان سے چلا گیا، عام پاکستانیوں کی حالتِ زار پر حکومتی بے حسی اور غیر مہذب رویے کو اُجاگر کرتا ہے۔

گندم کی پیداوار میں خود کفیل پاکستان گزشتہ چند برسوں سے مُسلسل قلّت کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ کم پیداوار والی فصلیں، قدرتی آفات اور آنے والی حکومتوں کی قابلِ اعتراض پالیسیاں ہیں۔ تاہم اِس بار گندم کی قلّت بدترین سطح پر ہے جس کے نتیجے میں آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھُو رہی ہیں جو کہ بہت سے پاکستانیوں کی اہم غذا ہے۔ اہم شہری مراکز میں آٹا 150 سے 160 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے جو کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں مہنگائی تقریباً 24.5 فیصد رہی۔

روسی گندم کی 7 لاکھ 50 ہزار ٹن درآمد سمیت دیگر ممالک سے درآمدی معاہدے کرنے کا حکومتی فیصلہ کافی تاخیر سے آیا ہے۔ لیکن مارکیٹ کے پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پورٹ قاسم پر 9 جنوری کو 60 ہزار ٹن کے قریب روسی گندم کی آمد آنے والے دنوں میں قلّت کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے گی۔

آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کو گندم کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرنے کے چیلنج پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو حالیہ برسوں میں کم و بیش جمود کا شکار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور اپنی فی ہیکٹر پیداوار کو موجودہ ڈھائی، 3 ٹن سے کم از کم 4 ٹن تک بڑھانے کی کوشش کرنا ہوگی جیسا کہ پڑوسی ملک بھارت کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اگلے 10 برسوں میں اپنی گندم کی پیداوار کو دگنا کرکے 6 ٹن فی ہیکٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ملک کو ایک قومی پالیسی کی ضرورت ہے جس کو عملی جامہ پہنانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کیونکہ متنازع 18 ویں ترمیم نے زراعت کو صوبائی موضوع بنا دیا ہے۔ 18 ویں ترمیم پر نظرثانی ہونے تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کی موجودہ قطبی سیاست کے تحت اس تعاون کا حصول مشکل ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گندم کی امدادی قیمت کے اعلان کے طریقِ کار پر بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے جس پر رائے مُنقسم ہے۔ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیاں جن پر جاگیرداروں کا غلبہ ہے، اپنی اپنی حکومتوں کو ایسی قانون سازی کو یقینی بنانے کا حکم دیتے ہیں جو بڑے مالکان کے لیے مفید ہو۔ دیہی اشرافیہ ہمیشہ اجناس کی امدادی قیمت کو اپنے حق میں مقرر کراتی ہے جس کا مجموعی اثر افراطِ زر پر پڑتا ہے۔

Advertisement

وفاقی وزیر قومی تحفّظِ خوراک (نیشنل فوڈ سکیورٹی) طارق بشیر چیمہ نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ سندھ حکومت نے گندم کی ’’بہت زیادہ‘‘ امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من (40 کلو) مقرر کی جس کی وجہ سے مرکز کی جانب سے اِس کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔

گندم کے آٹے کی برابر طلب و رسد اور قیمتوں کے تعین میں آڑھتیوں (مڈل مین) اور مل مالکان کا کردار بھی زیادہ تر غیرمنظّم اور متنازع ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ گندم کے جاری بحران میں حکومت اِن قیاس آرائیوں کو روکنے میں ناکام رہی جن کی وجہ سے مل مالکان سے لے کر آڑھتیوں تک اور حتّٰی کہ خوردہ سطح پر آٹے کی ذخیرہ اندوزی ہوئی۔ 18 ویں ترمیم کے تحت اگرچہ وفاقی حکومت تحفّظِ خوراک کو یقینی بنانے کی ذمے دار ہے لیکن وہ بغیر دانتوں کے شیر کی طرح ہے کیونکہ زراعت کا شعبہ اور قیمتوں کو قابو کرنے کا طریقِ کار دونوں صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ وفاقی حکومت بھی افغانستان کو گندم / آٹے کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام رہی ہے۔

مُستقبل قریب میں بحران کو کم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اقدامات کو تیز کرے اور گندم کی خرید و فروخت کے فرائض خود انجام دے کر مارکیٹ میں مداخلت کرے، بجائے اِس کے کہ یہ کام آڑھتیوں اور مل مالکان پر چھوڑ دیا جائے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی قیمتوں پر قابو پانے کے ایک مؤثر طریقِ کار اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم طویل مدت میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار اور اس کی کاشت کے رقبے کو بڑھانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ گندم اور آٹے کا موجودہ بحران تمام شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز) کے لیے وقتِ بیداری کی پُکار کے طور پر لیا جانا چاہیے جنہیں بہت دیر ہونے سے قبل اقدامات کرنے چاہئیں۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ