
کم از کم انصاف
صحافی ناظم جوکھیو کے قتل میں ملوث ہونے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایم پی اے جام اویس کی نااہلی کا قانونی نوٹس اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو بھیجا گیا ہے۔ نااہلی کا مقدمہ جام اویس کی جانب سے مقتول کے اہل خانہ کو ادا کیے جانے والے خون بہا کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ خون بہا کی ادائیگی سزا کی ایک شکل ہے اور جرم کا اعتراف ہے، لہٰذا یہ ایم پی اے کو نااہل قرار دینے کی کافی وجہ ہے۔ سچ پوچھیے تو پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ اور یہ استدلال ہی منصفانہ ہے۔ صوبہ سندھ کو باقی تمام صوبوں سے ہٹ کر، اپنے طرزِ حکمرانی کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک مثال قائم کرنا کہ طاقتور جاگیردار ہر جرم، خاص کر قتل سے بچ نہیں سکتے۔
26 سالہ ناظم جوکھیو کو نومبر 2021ء میں ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ ناظم جوکھیو کے بھائی افضل نے ابتدائی ایف آئی آر میں جام اویس اور اس کے بڑے بھائی ایم این اے جام عبدالکریم بجار کو نامزد کیا تھا۔ ناظم جوکھیو پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے جام اویس کے غیر ملکی مہمانوں کو شدید خطرے سے دوچار کیا اور عالمی سطح پر محفوظ نایاب پرندے تلور کا شکار کرنے کی وڈیو بنا کر اسے ضائع کرنے انکار کیا تھا جس پر اسے قتل کر دیا گیا۔ پرندوں کی یہ نسل 2014ء سے انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر (آئی یُو سی این) کی سرخ فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں تلور کے شکار پر سرکاری طور پر پابندی عائد ہے، اس کے باوجود ہر سال کچھ غیر ملکی مہمانوں کو اس خونی کھیل کے لیے کچھ لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ مجرمانہ نہیں تھا تو حقیقت یہ ہے کہ ایک تنہا آدمی محض درست کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کے بعد پیش آنے والے واقعات پاکستان کے فوجداری نظامِ انصاف کے منہ پر اور بھی بڑا طمانچہ ہیں جو بار بار پسماندہ افراد کو ناکام کرتا ہے۔ ناظم جوکھیو کے خاندان پر، جس کے لیے جام اویس جیسی دولت اور مراعات جمع کرنے میں اگر زیادہ نہیں تو سو سال تو لگ ہی سکتے ہیں، اس کیس سے ارکانِ اسمبلی کے نام واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ناظم جوکھیو کی اہلیہ نے ریکارڈ پر یہ بھی بتایا کہ اسے “اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے” اور آخرکار انہوں نے خون بہا کے عوض قاتلوں کو معاف کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے ارکانِ اسمبلی کے خلاف قتل کے الزامات پر بھی لب کشائی نہیں کی جو سندھ کے ساتھ غلط ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پورے کیس میں کسی بھی موقع پر پی پی پی نے جام خاندان سے خود کو الگ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ پارٹی کی موجودہ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمٰن کو حال ہی میں پاکستان میں 2022ء کے سیلاب کے نتیجے میں موسمیاتی انصاف کی حمایت کرنے والے کئی معتبر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر دیکھا گیا۔ سینہ ٹھوکنا بے کار ہے اگر پارٹی موسمیاتی تحفظ کی بات کرتے وقت خود اپنا گھر سدھار نہیں سکتی۔ ناظم جوکھیو کو بجا طور پر پاکستان کا پہلا کلائمیٹ جسٹس شہید کہا جا سکتا ہے۔ سندھ حکومت کو نہ صرف ان کے اقدامات کی تعریف کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی پیروی کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔
اس طرح کے کئی المناک واقعات میں پولیس اور عدالتوں کے کردار کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ ایک خاص پولیس افسر کے خلاف ایک اور حالیہ فیصلہ جو کہ ایک کیس ہے۔ ہمارے فوجداری نظامِ انصاف کے کام کرنے کے طریقے میں کچھ بھی ’’انصاف‘‘ جیسا نہیں ہے۔ شواہد، گواہ اور محرک، جب طاقتور کی بات آتی ہے تو کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ ناظم جوکھیو کے کیس میں بھی، سول سوسائٹی نے چارج شیٹ پیش کرنے میں پراسیکیوشن کی سست روی کی شکایت کی جس سے ملزم کو تحفظ اور اثر و رسوخ حاصل تھا۔ بالآخر جب چارج شیٹ پیش کی گئی تو تفتیشی افسر (آئی او) نے کالم II میں جام اویس اور اس کے 10 ملازمین کے نام نیلی سیاہی سے درج کر دیے۔ یہ عدالت سے سفارش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ چارج شیٹ سے درج ذیل ناموں کو ہٹا دیا جائے۔ تاہم جج کے پاس تفتیشی افسر کی رائے سے اختلاف کرنے اور مشتبہ افراد کو نامزد کرنے کا اختیار ہے جسے وہ سمجھتے ہیں کہ نامزد کیا جانا چاہیے۔ ناظم جوکھیو کے معاملے میں یہ اختیار غیر استعمال شدہ رہا۔ خاندان کی طرف سے قتل میں نامزد کیے گئے تمام افراد سزا سے بچ گئے۔
اب جبکہ پی پی پی کے ایم پی اے کی صوبائی اسمبلی سے نااہلی کا معاملہ سامنے آیا ہے تو اسپیکر سندھ اسمبلی کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو ناظم جوکھیو کے خاندان کے ساتھ ساتھ اس صوبے کے ہر شہری کے لیے اِس نااہلی کی حمایت کرنی چاہیے۔