05th Feb, 2023. 09:00 am

پشاور دھماکا

کم از کم 101 جاں بحق ۔۔ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی! قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کی گردش کرتی تصویر کو دیکھ کر ہاتھ کپکپاتے ہیں ۔۔ چہرہ زرد پڑ جاتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ تابوتوں میں آرام کرنے والوں میں زیادہ تر خیبرپختونخوا پولیس سے تعلق رکھنے والے جوان اور افسران تھے۔

اس ہفتے کے آغاز میں پشاور کے علاقے پولیس لائنز کی ایک مسجد میں ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جہاں سینکڑوں نمازی نماز عصر کی ادائیگی کے لیے جمع تھے۔ وحشیانہ دہشت گرد حملہ اس تباہی کی ایک اور بھیانک یاد دہانی ہے جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پھیلا سکتی ہے۔ یہ پاکستان کی طالبان پالیسی کی بار بار ناکامی کی ایک افسوسناک یاد دہانی بھی ہے، خاص طور پر اُن سے مذاکرات کرنا جنہوں نے ماضی میں ملک میں قتلِ عام کیے۔ یہ ناانصافی ہے کہ مزید 101 معصوم پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کو ان پالیسیوں کی ناکامیوں کی قیمت چکانی پڑی۔

اِس ہفتے ہر پاکستانی گھرانے کی ٹی وی اسکرین پر ایک نصف منہدم مسجد، خون میں لت پت زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیے جانے کے ہولناک مناظر چھائے رہے جنہیں لوگ خوف، دہشت اور غصے سے دیکھتے تھے۔ تمام ریاستی حلقوں سے معمول کی مذمت کی گئی۔ “دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور پشاور دھماکے کے ذمے داروں کو مثالی انصاف کے کٹہرے میں لانے” کے وہی پرانے کھوکھلے دعوے کیے گئے اور پھر آخرکار ہمارے سیاسی رہنماؤں کا سب سے پسندیدہ کھیل شروع ہوا کہ: قصوروار کون ہے؟ حملے کے کچھ دنوں تک موجودہ وزیراعظم سے لے کر ایک سابق وزیراعظم تک دونوں نے قومی ٹیلی ویژن پر الزامات کی تجارت کی۔ اس طرح کے ناقص اور معمولی سیاسی انتشار کا مظاہرہ کرنے کے لیے اس سے زیادہ بُرا وقت نہیں ہو سکتا تھا۔ تنقید خوش آئند اور مطلوب ہے لیکن اسے عوام کی نظروں میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت سیاسی ہم آہنگی کا فقدان دشمن کو ہی فائدہ دے گا جس سے ملک ایک آسان ہدف بن جائے گا۔

محدود نظر طالبان پالیسی کے ذمے دار افراد اور اداروں کے نام بھی بالکل واضح ہیں اور وہ ہمیشہ رہے ہیں۔ اگر ہمارے قومی رہنما سمجھتے ہیں کہ کسی سیاستدان یا فوجی افسر کی ایک دوسرے پر تنقید سے شہریوں کو بے وقوف بنا لیا جائے گا تو وہ ایک بار پھر غلطی پر ہیں۔ پاکستانی عوام کو صورتحال بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بری ہے اور وہ یہ جانتے ہیں۔ سابقہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے بہت سے افراد نے  ٹی ٹی پی کے سابق اور موجودہ اڈوں کے بارے میں بروقت خبردار کیا تھا۔ تمام ریاستی اداروں کو مل بیٹھنے، نظرثانی کرنے اور اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے جس کے باعث ملک میں دہشت گردی دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ مہلک عسکریت پسندوں کو اُن کے ہتھیاروں کے ساتھ ملک میں محفوظ راستہ فراہم کرنے کے دعووں کے جوابات بھی دیے جانے چاہئیں۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے بعد سابق فاٹا کے علاقے میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے عمل کو شروع کرنے میں ریاستی نااہلی کو بھی زیربحث لانا چاہیے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے بیان کے مطابق حملے کے ایک دن بعد منعقدہ کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں اعلیٰ فوجی افسران کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں (سپورٹ میکنزم) کے درمیان گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی انٹیلیجنس پر مبنی کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ یہ شاید افغان طالبان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں ضروری تبدیلی کا غیراعلانیہ اعتراف بھی ہو سکتا ہے جنہوں نے ابھی تک ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین سے کارروائی کرنے سے روکنے کے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا ہے۔

Advertisement

یہ باعثِ اطمینان ہے کہ انٹیلیجنس آپریشنز فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ تاہم دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے قومی سطح پر ایک وسیع تر پالیسی پر بحث کرنے اور اسے شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کی پارلیمان سے توثیق کی گئی ہو۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر موجودہ حکومت الزام تراشی کے کھیل میں ملوث ہونے کی بجائے مکمل تیاری سے قومی ایکشن پلان (این اے پی) کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے۔ مجموعی 20 نکاتی ایکشن پلان 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے خوفناک حملے کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے اِسے ایک طرف رکھ کر بھُلا دیا گیا۔ وزیر خارجہ کا حالیہ بیان جس میں قومی ایکشن پلان کو “واحد حل” قرار دیا گیا ہے، خوش آئند ہے تاہم یہ صرف بیان کی حد تک نہیں رہنا چاہیے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کو سنجیدگی سے دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے کے لیے منصوبہ بندی اور توانائیاں صرف کرنا ہوں گی ایسا نہ ہو کہ اس ملک کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ