
قلم کی طاقت
پاکستان میں پریس کی آزادی برسوں سے خطرناک حد تک زوال کا شکار ہے۔ بول نیوز کے تحقیقاتی صحافی شاہد اسلم کی گزشتہ ہفتے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے گرفتاری سے پاکستانی صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ترین ممالک میں سے ایک ہونے کے عالمی تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ سینیئر صحافی کو ایک آن لائن تحقیقاتی خبر کے لیے معلومات افشا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خاندان نے اُن کے دور میں اربوں روپے کی دولت اور جائیدادیں بنائیں۔ شاہد اسلم نے اِس خبر سے کوئی بھی تعلق ہونے کی تردید کی۔ جس صحافی کا یہ مضمون گزشتہ سال نومبر میں شائع ہوا تھا، اُس نے بھی اِس خبر میں شاہد اسلم کے کسی کردار کی تردید کی، لیکن ایف آئی اے نے پھر بھی شاہد اسلم کو گرفتار کر لیا۔ ایف آئی اے حکام کی جانب سے اُنہیں گھسیٹتے ہوئے عدالت لے جانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں صحافی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اُن سے اپنے پاس ورڈ دینے کو کہا جا رہا ہے۔ صحافی اپنی بات پر قائم رہے اور کہا کہ ایسا صرف “میری لاش پر” ہوگا۔ شاہد اسلم کی بہادری قابلِ تعریف تھی۔ ذرائع اور اِن کی رازداری کی حفاظت صحافت کا بنیادی اُصول ہے، تاہم ایک صحافی کا اِس طور سے یہ فریضہ انجام دینا کسی المیے سے کم نہ تھا۔
شاہد اسلم کو اب ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے لیکن یہ شاید ہی باعثِ خوشی ہو۔ یہ محض کچھ ہی دیر کی بات ہے جب کسی اور صحافی کو اپنے فرض کی ادائیگی کے جرم میں پوچھ گچھ کے لیے دھر لیا جائے گا اور اِس پر عجیب و غریب الزامات لگائے جائیں گے۔ پاکستانی حکمراں اشرافیہ کے بعض طبقات کو غیر منصفانہ تحفّظ فراہم کرنے سے ہمارا خدشہ اور زیادہ یقینی ہو جاتا ہے۔ اِس میں سائبر کرائم کے مُستقل غلط استعمال کو شامل کریں، جس کے تحت صحافی شاہد اسلم پر بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، اور بغاوت کے قوانین اور آپ کے پاس خود ایک ریاست ہے جو اِس ملک کی “جمہوریت” میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے، اِسے نقصان پہنچا رہی ہے۔ مایوسی کا ایک گہرا احساس اِس بدقسمت احساس سے بھی جنم لیتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل- این) حکومت نے میڈیا کی آزادی کو مُسخّر کرنے کے اپنے گزشتہ ریکارڈ پر قائم رہنے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ہمیں سال 1999ء کی یاد دلاتا ہے جب بڑے شریف کی زیر قیادت حکومت نے ملک کے چند سرکردہ اخبارات کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں اُن کے پاس مختصر سا ایڈیشن شائع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ جب سینیئر صحافیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا اور اِنہیں یا تو ملازمت سے برطرف کرنے یا اِن کی تنزلی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
2015ء میں اپنے تیسرے دور اقتدار کے دوران نواز شریف حکومت نے بول میڈیا گروپ کو نشانہ بنایا اور حریف میڈیا مالکان کے کہنے پر اِس کے نیوز چینل کے آغاز کو روکنے کے لیے غیرمثالی کریک ڈاؤن شروع کیا۔ موجودہ مخلوط حکومت صحافیوں کو تحفّظ فراہم کرنے کے وعدوں کے باوجود آزاد آوازوں اور میڈیا کو خاموش کرنے کی کوشش میں کافی گر چکی ہے۔ اپنے 9 ماہ کے مختصر دور اقتدار میں میڈیا کے خلاف شہباز شریف حکومت کے جرائم کی فہرست طویل ہو چکی ہے۔ اِس میں معروف اینکر پرسن ارشد شریف کو ہدف بنانا بھی شامل ہے جو بالآخر کینیا میں پُراسرار حالات میں اُن کے قتل پر مُنتج ہوا۔ سمیع ابراہیم، جمیل فاروقی اور عمران ریاض خان سمیت میڈیا کے کئی دیگر اہم چہروں کے خلاف مقدمات بنائے گئے جن کا تعلق بول نیوز سے تھا۔ جمیل فاروقی اور عمران ریاض خان دونوں کو دورانِ حراست گرفتاری اور تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
میڈیا ہاؤسز پر دباؤ ڈالنا اور پیمرا کو استعمال کرتے ہوئے آزاد نیوز چینلز کی نشریات کو غیر قانونی طور پر روکنا پاک سرزمین پر ایک نیا معمول بن چکا ہے۔ خود وزیراعظم شہباز شریف کے الفاظ میں جو ابھی گزشتہ ماہ جرنلسٹ سیفٹی فورم کے زیر اہتمام ایک تقریب میں اُنہوں نے کہے تھے کہ اُن کی “حکومت کا خیال ہے کہ کسی صحافی یا انسانی حقوق کے کارکن کو فرائض کی انجام دہی کے دوران پوچھ گچھ کے لیے نہیں بلایا جانا چاہیے”۔ لیکن صحافیوں کو نشانہ بنانے، بشمول شاہد اسلم کی تازہ ترین گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے۔ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفّظ کا ایکٹ 2021ء بھی کافی جوش و خروش سے پاس کیا گیا۔ پھر بھی اِس کی منظوری کے بعد سے صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد ڈھکی چھُپی نہیں ہے۔ ایسے قوانین کا کیا فائدہ اگر اِن کی اتنی بے دریغ خلاف ورزی کی جائے؟ قانون سازی صرف اِس صورت میں رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے جب حکمران حلقے اُس اِستثنیٰ سے لطف اندوز نہ ہوں جس کے وہ اتنے عادی ہو چکے ہیں۔
ریاستی حکام اب تک صرف بُری خبر دینے والے کو ہی مُوردِ الزام ٹھہراتے آئے ہیں۔ اگر کسی چیز کی چھان بین کرنی ہے تو اُن خبروں کی کیجیے جو صحافی دے رہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں لوگوں کو سچ بولنے سے روکا جاتا ہے اور قلم کو سچ لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، تشدد کی زبان غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو عوام اور ریاست دونوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ریاست اور میڈیا مالکان نے بڑی چالاکی سے پریس کی آزادی کو سلب کیا ہے۔ صحافی یونینوں کو مذمتی بیانات جاری کرنے اور طاقتوروں کے پیادوں کے طور پر کام کرنے کے علاوہ بہت کچھ کرنا ہوگا۔
یہی وقت ہے ۔۔ قلم کی طاقت کے مُطالبے کا!