25th Sep, 2022. 09:00 am

خطرناک راستے پر

پاکستانی سیاست مکمل طور پر تصادم کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان، شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت کے حتمی طور   پر خاتمے  کےلیے  اپنی حکمت عملی  طے  کر  رہے ہیں جب کہ ان کے حریف اس چیلنج سے بچنے کے لئے  کوششوں میں مصروف ہیں ۔یہ سب کچھ  شدید معاشی بحران اور  بدترین  سیلاب کے چیلنج کے پس منظر میں ہو رہا ہے جس کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ براہ راست متاثر ہے ۔ اس کے باوجود  جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ ریاست اور عوام کی قیمت پر بھی معاملات کی سرکوبی کے لیے پرانی چالوں پر قائم ہیں۔ اب تک حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے اس گھمبیر سیاسی تعطل کو مذاکرات کے ذریعے توڑنے کے لیے کوئی اقدامات  نہیں اٹھائے گئے ۔

سیاسی تعطل کو توڑنے کے لیے کوئی ٹھوس تجاویز سامنے لانے کے بجائے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ڈھٹائی سے اپوزیشن کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں مظاہرے میں شامل  افراد کو   سزا دینے اور کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کریں گے ۔جبکہ ایک جمہوری ملک میں  اپوزیشن اور تمام اختلافی آوازوں کا ایک ناقابل تردید حق  تصور کیا  جاتا ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام سے لے کر پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کے مظاہروں  تک، عمران خان کی پچھلی حکومت نے کبھی بھی اپوزیشن قوتوں کو اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام حکومتی مخالفین  حکام کی طرف سے کسی  بھی رکاوٹ  کے بغیر اس حق کا استعمال کرتے  رہے ہیں، لیکن شہباز شریف کی حکومت اس حقیقت کے پیش نظر  ایک الگ ایجنڈے  پر  گامزن ہے ، پاکستان مسلم لیگ نواز،  اس   11 جماعتی  اتحاد کی قیادت  کرتی ہے ، اور اپوزیشن کو دبانے، میڈیا کو گھیرنے اور یہاں تک کہ پاک فوج جیسے اداروں پر غلبہ پانے کی کوشش کرنے کی ایک طویل تاریک تاریخ رقم کی جارہی ہے ۔

اب ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) شریف خاندان اور اس کے  سینئر  رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے  ممکنہ  حد تک   اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔قومی احتساب بیورو (نیب )کے قوانین میں متنازع ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے جو نامکمل قومی اسمبلی کی جانب سے لائی گئی ہیں اور جس طرح سے میگا کرپشن کیسز میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو ریلیف دیا  جا تا رہا ہے  ۔ حکومتی  فریق کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی  ہے کہ عمران خان کو اس مشکل وقت میں سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ بہت سے پاکستانی موجودہ سیاسی نظام  میں  ساکھ کی کمی  کے مسئلے کو   دیکھ رہے ہیں ۔شہباز  شریف کی حکومت جتنی دیر تک اقتدار سے چمٹی رہے گی  ،پاکستان کے لیے اتنا ہی زیادہ نقصان دہ ہوگا  کیونکہ اس حکومت  کے اقتدار میں رہتے ہوئے   مقامی تاجر برادری اور سرمایہ کار ملک میں پیسہ لگانے سے گریز کر رہے ہیں ۔

یہ بات اس حقیقت سے بھی عیاں  ہوتی ہے کہ شہباز حکومت مقامی کاروباری  افراد   سمیت  مخیر حضرات کو  سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے براہِ راست عطیات دینے پر راضی کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔

اس کے باوجود شہباز شریف اور ان کی 72 رکنی مضبوط کابینہ ، جس کا حجم  بہتر معاشی دور میں بھی ناقابل قبول ہونا چاہیے ، اس وقت پاکستانیوں کی مایوسی سے غافل دکھائی دیتی ہے ۔

Advertisement

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ جیسے سخت گیر افراد کی قیادت میں حکومت اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹریٹ پاور پر قبضہ کرنا چاہتی ہے کہ ماضی کے برعکس  جب اس نے 25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کا سہارا لیا تھا۔ اس   بار پنجاب  پولیس    کو  استعمال  کرنے  کا اختیار   وہ کھو چکے ہیں ۔یہاں  تک کہ اگر اسلام آباد پولیس نیم فوجی دستوں کی حمایت یافتہ ہے تو طاقت کا استعمال کرکے پی ٹی آئی کے حامیوں سے ’نمٹنے‘ کی صلاحیت رکھتی ہے، سوال یہ  پیدا ہوتا ہےکہ  اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟  کیا

اس سے سیاسی بے یقینی اور انتشار کو ختم کرنے میں مدد ملے گی؟ کیا   یہ  عمل موجودہ  حکومت کو جائز اور مضبوط کرے گا؟ کیا پاکستانی، اس حکومت پر اعتماد کرنا شروع کر دیں گے جس کی قیادت  کرپٹ وزیر اعظم شہباز شریف  کر رہے ہیں  جو  اپنے وزرا سمیت  متعدد  میگا کرپشن کیسز  میں ملوث  ہیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی  میں ہے ، اگر حکومت اگست 2023ء تک  برقرار  رہتی ہے ،اگر یہ پارلیمنٹ اپنی 5 سالہ مدت پوری کر لیتی ہے تو اس کی قیمت ملک اور اس کی معیشت  کو چکانا پڑے گی، کیونکہ استحکام کے بغیر ملکی سیاست اور معیشت کو پٹری پر نہیں  لایا جا سکتا ۔ان حالات میں پاکستان  کے مستقبل پر کئی شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں، سیاست دانوں نے پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر یا باہر معاملات کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔لہٰذا ریاستی اداروں یعنی اعلیٰ عدلیہ اور پاک فوج کا فرض ہے کہ وہ اس سیاسی تعطل کو توڑنے میں اپنا  کردار ادا کریں ۔

اگر وہ ’غیرجانبداری‘ کے نام نہاد سیاسی طور پر درست موقف پر قائم رہتے ہیں، تو وہ پاکستان کے فوری اور طویل مدتی مفاد میں ایسا کر رہے ہوں گے۔ملک  نے عدم استحکام کے عمل کی  بھاری  قیمت ادا کی ہے جو 2022ء کے اوائل میں شروع ہوا تھا۔اب  پاکستان کو ہر قیمت پر  مکمل استحکام کی ضرورت ہے۔اداروں کو  ملک میں استحکام کو   قائم  کرکے   اسے  برقرار رکھنے تک  پیش پیش  رہنا ہوگا۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ