
ڈار کے تباہ کن فیصلے
پانچ ماہ تک اپنے مؤقف پر اَڑے رہنے کے بعد مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے نام نہاد مالیاتی گُرو اسحاق ڈار نے آخرکار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے روپے کو مصنوعی طور پر سہارا دینے، توانائی کے شعبے کے نقصانات کو کم کرنے اور کچھ اضافی وسائل کو متحرک کرنے کے تباہ کن فیصلوں کو واپس لینے کے جائز مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ تاہم ان اہداف کے حصول کے لیے ڈار نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ انتہائی متنازع ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی تباہ حال معیشت اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔
آئیے اسحاق ڈار کے نام نہاد اصلاحی اقدامات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں۔ منی بجٹ سے شروع کرتے ہیں جس کا مقصد بالواسطہ ٹیکس بشمول جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے اور سیمنٹ اور تمباکو جیسے پہلے سے سخت نچوڑے ہوئے شعبوں پر ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھا کر 170 ارب روپے جمع کرنا تھا۔ ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے یا ان شعبوں اور افراد کو جو اپنی بلند آمدن اور دولت کے باوجود قومی خزانے میں مونگ پھلی جتنا حصہ ڈالتے ہیں، مجبور کرنے کی حتٰی کہ کوئی علامتی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ اعلیٰ درجے کے شاپنگ مالز، دکانداروں، پیشہ ور افراد جیسے وکلاء اور ڈاکٹر اور بہت سے افراد اس زمرے میں آتے ہیں۔ ایسے ہی زرعی شعبہ بھی ہے جو بدقسمتی سے صوبوں کے تحت آتا ہے جہاں کی اسمبلیوں میں ذاتی مفادات کے سبب زیادہ محصولات حاصل کرنے کا کوئی سیاسی عزم نہیں ہوتا اور اس حقیقت کے باعث کہ 10 ویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے کافی زیادہ فنڈز ملتے ہیں جو خود اِس کے بعد مناسب مالی وسائل سے محروم رہ جاتی ہے۔
یہی معاملہ توانائی یعنی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا ہے۔ بجلی کی چوری، ترسیل اور تقسیم کاری کے نقصانات کو روک کر گردشی قرضے سے نجات کے لیے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی بجائے حکومت نے آسان راستہ اختیار کیا ہے۔ حکومت نے ان لوگوں پر بوجھ ڈالا جو ایمانداری سے بل ادا کرتے ہیں۔ جہاں تک گیس کے نرخوں میں اضافے یا معقولیت کا تعلق ہے تو یہ کافی عرصے سے زیر التوا ہے۔ لیکن یہاں ایک بار پھر حکومت کو اصلاحات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور گھروں کو پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کرنے کی بجائے، جہاں کھانا پکانے کے لیے بجلی کا استعمال متعارف کرایا جانا چاہیے، وہاں سستی اور ماحول دوست بجلی کی پیداوار کے لیے قدرتی وسائل کا استعمال شروع کرنا چاہیے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بلند رکھنے کے ڈار کے فیصلے نے پہلے ہی معیشت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے فروغ پذیر کرنسی بلیک مارکیٹ تخلیق کی جس کے نتیجے میں ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں کمی آئی اور پاکستان میں کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوا۔ ڈار کی تباہ کن کرنسی پالیسی کو تبدیل کرنے میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے مذاکرات کار اِس کے پاکستان سے تعلقات کی بدلی ہوئی حرکیات کو اُجاگر کرتے ہوئے “لے لو یا چھوڑ دو” کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو اب کسی بھی نئی قسط کے اجراء سے قبل پاکستان سے پیشگی اقدامات درکار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حکومت پر اعتماد نہیں۔ ڈار نے سوچا کہ وہ آئی ایم ایف کو شکست دے کر کسی نہ کسی طرح فرنٹ لوڈڈ پروگرام سے باہر نکل جائیں گے لیکن وہ ناکام رہے اور بالآخر انہیں ان تمام شرائط پر اتفاق کرنا پڑا جن کے بارے میں ان کے پیشرو مفتاح اسماعیل ہمیشہ سے کہتے رہے تھے کہ ملک کے پاس آپشنز کی کمی ہے۔
ڈار کے ناقص معاشی انتظام کے اثرات پاکستان کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ جی ایس ٹی میں اضافہ اور پیٹرولیم اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے افراط زر کا دباؤ بڑھے گا جو کچھ سرکردہ ماہرین اقتصادیات کے مطابق مارچ تک کم از کم 30 فیصد تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود مزید بڑھانے پر مجبور ہوگا۔ مارکیٹ کو خدشہ ہے کہ شرح سود جو پہلے ہی 17 فیصد تھی، مزید بڑھ سکتی ہے۔ یہ غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کی کمی کے باعث پاکستان کی پہلے سے مشکلات کی شکار معیشت پر مزید دباؤ ڈالے گی اور اقتصادی ترقی کو منفی رُخ پر دھکیل دے گی۔
شرح سود میں اضافے سے پاکستان کے قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ ایک فیصد اضافے سے ملک کے قرضوں میں 250 روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اس سے بجٹ سازی مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ نتیجتاً بجٹ خسارہ بڑھنے کے لیے تیار ہے، قرض اور افراط زر میں اضافہ اور ترقی منفی رُخ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ’’پرانے پاکستان‘‘ کے علمبردار ملک کو جمود کے ایک طویل دردناک دور کی جانب لے جا رہے ہیں۔