Advertisement

بگرام ایئر بیس، جہاں سامراج ہارتے ہیں اور تاریخ جیت جاتی ہے

چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے بگرام ایئربیس کو واپس لینے کی خواہش کا اظہار کر کے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

دفاعی ماہرین امریکا کے بگرام ایئربیس واپس لینے کے بیان پر گہری سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ چند سال قبل اسی بیس سے ذلیل و رسوا ہو کر امریکی فوج نکلی تھی آج دوبارہ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا امریکا دوبارہ اس خطے میں کوئی نئی جنگی بساط بچھانے کی سازش تیار کر رہا ہے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ بگرام صرف ایک ایئربیس نہیں، یہ زمین پر وہ مقام ہے جہاں امریکا اور سوویت یونین جیسے سپر پاورز کے خواب خاک ہوئے، اور تاریخ نے فاتحین کے منہ پر طمانچہ مارا۔

افغانستان کے دل میں کابل کی گردن پر ایک عظیم مگر خاموش دیو سویا ہوا ہے بگرام ایئربیس۔ بظاہر ویران مگر اپنی اینٹ اینٹ میں وہ راز چھپائے ہوئے جو واشنگٹن اور ماسکو جیسے دارالحکومتوں کو نیند سے محروم رکھتے ہیں۔

Advertisement

1979ء میں جب روسی افواج نے افغانستان میں قدم رکھا، تو انہیں اندازہ تھا کہ فضا پر قبضہ، زمین پر تسلط کی شرط ہے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے کابل کے شمال میں بنایا  بگرام۔ ایک فضائی قلعہ، جہاں سے نہ صرف بم برسائے جاتے تھے، بلکہ مستقبل کی عالمی سیاست کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔

5 ہزار ایکڑ پر پھیلا، دو رن ویز، جدید ورکشاپس، ہسپتال، ہیلی پیڈ، رہائش گاہیں بگرام وہی اڈہ تھا جو سوویت یونین کی طاقت کی علامت بن گیا لیکن زیادہ دیر روسی ریچھ اس ایئربیس پر مسلط نہ رہ سکا۔

2001ء میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو بگرام اس کے لیے خدا کی طرف سے بھیجی گئی سہولت بن گیا۔ تیار شدہ بیس، کابل کے قریب، توسیع کے قابل بگرام فوراً امریکی جنگی مشین کا دماغ بن گیا۔

Advertisement

یہاں امریکی سی آئی اے  کے خفیہ عقوبت خانے بنائے گئے، یہاں سے ڈرون حملے پلان ہوتے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں مشن مکمل کے فیصلے ہوتے، اور پوری قومیں تباہی کی طرف دھکیلی جاتیں۔

بگرام ایئر بیس امریکا کے لیے مشرق کا گوانتانامو بن گیا تھا، یہ ایک امریکی فوجی اڈہ ہی نہیں بلکہ رازوں کا مقبرہ تھا، قیدی یہاں آتے، مگر نہ ان کا کوئی مقدمہ ہوتا، نہ رہائی۔ بلیک سیل وہ مقام تھا جہاں قانون، اخلاق اور انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

امریکا کے لیے یہ ایئر بیس سونے کی چڑیا کی مانند تھا، کیوں کہ بگرام پر رہتے ہوئے امریکا کی فوج ایران کی نگرانی، پاکستان اور چین پر دباؤ بنانے کی چالیں چل رہا تھا۔

امریکا کے لیے یہ ایئربیس روس کی حدود میں جھانکنے کی کھڑکی نما تھا، یعنی بگرام صرف افغانستان کا نہیں، نصف دنیا کا تزویراتی کنٹرول روم تھا۔

Advertisement

جولائی 2021 کی وہ رات، جب امریکی فوج بغیر اطلاع دیے چپ چاپ بگرام ایئر بیس چھوڑ گئی وہ صرف انخلا نہیں تھا، عسکری ذلت کا پرائم ٹائم تھا۔

ایک عالمی طاقت، جو دو دہائیوں سے امن، جمہوریت اور دہشتگردی کی جنگ کے نام پر قابض تھی، آخرکار اندھیرے میں بھاگ گئی۔ اور صبح طلوع ہونے تک طالبان بگرام کے گیٹ پر فاتحین کی طرح کھڑے تھے۔

آج کا بگرام ایئربیس خاموش ہے نہ یہاں امریکی ہیں اور نہ ہی روسی مگر اس کی ہر اینٹ اور دیوار ایک کہانی سنا رہی ہے۔

امریکی صدر کی بگرام ایئربیس واپس لینے کی خواہش کو طالبان نے رد کر دیا ہے اور صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اب واپسی ممکن نہیں۔

Advertisement

مگر کیا امریکہ طالبان کے انکار کو من و عن مانے گا؟ یا یہ امریکی خواہش کسی نئی خفیہ جنگ کا پیش خیمہ ہے؟

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بگرام ایئربیس وہ جگہ ہے جس نے سوویت یونین کی سلطنت کو تار تار کیا، جہاں امریکی غرور ذلت اور رسوائی کا سبب بنا۔

بگرام ایک ایئر بیس نہیں، ایک بارود ہے۔ جو بھی اس پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے وہ صرف افغانستان پر نہیں، مشرقی دنیا کی سیاست پر بھی قبضہ جمانے کے خواب دیکھتا ہے مگر آخر میں منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ بگرام ایئربیس کیا دوبارہ امریکا کے زیر تسلط آئے گا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
اختتام
مزید پڑھیں
آج کی بول نیوز
بوئنگ نے مقبول مگر متنازع 737 میکس کی جگہ نیا طیارہ بنانے کا فیصلہ کر لیا
غزہ امن معاہدہ، اب صرف حماس کے جواب کا انتظار ہے، صدر ٹرمپ
صدر ٹرمپ کا غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبہ
نیتن کا ٹرمپ امن منصوبے سے انحراف، فلسطینی ریاست پر عدم اتفاق کا بیان داغ دیا
مسلم ممالک کا غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل پر زور، ٹرمپ امن منصوبے کی حمایت کردی
اسرائیل کے تازہ حملوں میں مزید 39 فلسطینی شہید، ٹرمپ کے امن منصوبے پر غور کر رہی ہیں، حماس
Advertisement
Next Article
Exit mobile version