درد کی داستان
مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے
(فیض احمد فیض)
پاکستان کے درد کی داستان نہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ تہوں میں حرکت کرتا ہے، جو ہر نیا دن طلوع ہونے کے ساتھ ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہیں۔ یہ عمل قدیم زمانے سے جاری ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے برقرار رہنے کا امکان ہے ، جب تک کہ کوئی تباہ کن تبدیلی رونما نہ ہو جو اس عارضے کو شکل دینے والی قوتوں کے درمیان توازن کو بدل ڈالے
جب یہاں آمر مسلط ہوجاتے تو وہ اپنے دور اقتدار کو طویل کرنے کے لیے سیاسی سودے بازی میں دلچسپی رکھتے تھے، اور جب جمہوریت پسند حکمران اقتدار سنبھال لیتے، تو وہ بے حد ظالمانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کا شکار ہوتے۔ حکمرانی کی دونوں اشکال میں سے کسی نے بھی قومی ترقی اور عوام کی بہتری پر توجہ دی اور نہ ہی ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کیا۔
اس کے بجائے، ان کی توجہ ریاست کے ساتھ خود غرضانہ سودے کرکے اپنے ذاتی فوائد کو بڑھانے پر مرکوز رہی، اقتدار قائم رہنے تک انہیں اس کے علاوہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ یہ وہ دائمی مرض ہے جس میں ملک پھنسا ہوا ہے۔ اب یہ اس حد تک کمزور ہو چکا ہے کہ سانس لینا مشکل ہے اور مستقل طور پر مصنوعی طریقوں سے اس کی سانس کی ڈور برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
کئی دہائیوں تک ان حکمرانوں کو بلا چون و چرا تسلیم کیے جانے کے پس منظر کے ساتھ، پچھلے چند مہینوں میں واضح طور پر ایک مختلف جذبہ اور متحرک جنون سامنے آیا ہے۔ ہم نے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنی رائے اور خواہشات کو مضبوط انداز میں ظاہر کرنے کے لیے باہر نکلتے دیکھا ہے۔اس عوامی بیداری نے قومی منظرنامے کو تبدیل کردیا ہے جس میں اب یہ توقعات ابھر رہی ہیں کہ تبدیلی آنے والی ہے۔ سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ قیدیوں پر ریاستی جبر اور حراستی تشدد اور میڈیا پر آمرانہ پابندیوں کے باوجود سر اٹھانے کی یہ جبلت دبائی نہیں جاسکی۔
درحقیقت یہ بیداری بڑھتی ہی جارہی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان لوگوں کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں جو اپنے اظہار میں بے خوف ہیں اور موجودہ حکومت کے فاشسٹ ہتھکنڈوں کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ درحقیقت یہ رکاوٹیں انہیں اپنے احتجاج کا دائرہ بڑھانے اور وسیع کرنے کے لیے مزید حوصلہ اور توانائی فراہم کرتی ہیں۔ عوام الناس کے ایک سمندر کو ان کے خاندانوں سمیت جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، اس بڑے پیمانے پر اس تحریک کا حصہ بنتے ہوئے دیکھنا حیران کن ہے جس کا مقصد صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد اور عوام کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ ان حلقوں کی مداخلت کے بغیر اپنی پسند کا رہنما چن سکیں جو ملک کے سیاسی منظر نامے پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔
کچھ ایسی پیشرفت ہیں جو انتہائی حیران کن ہیں۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں تبدیلی ایک معمول کا پیشہ ورانہ معاملہ ہونا چاہیے۔ اخبارات اور ٹاک شوز میں اس پر بحث کرنا ، زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے جن کا علم اس بارے میں محدود ہے کہ یہ معاملات کیسے انجام پاتے ہیں، نامناسب ہے ۔ پوری جمہوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے: ایک حاضر سروس افسر اپنی مدت پوری کرکے فرائض سے سبکدوش ہوتا ہے اور اگلے افسر کے لیے عہدہ چھوڑ کر باوقار انداز میں چلاجاتا ہے۔ اس کے بارے میں میڈیا کی پوری بحث قیاس آرائی پر مبنی ہے جو اس عمل کو نقصان پہنچاتی ہے جس کے تحت فوج میں کمان کا ڈھانچہ کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، حکومت جس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کروانا چاہتی ہے، اس کا تعلق وزیر اعظم کو یہ اختیار دینے سے ہے کہ وہ کسی بھی افسر کو جو اپنی مدت ملازمت پوری کرچکا ہو ،اس کے عہدے پر برقرار رکھ سکتے ہیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا اگرچہ ایک دو مواقع پر اعلان کیا گیا، مگر اس کا انعقاد اب تک نہ ہوسکا، لیکن جی ایچ کیو میں تبدیلی کی مقررہ تاریخ سے پہلے اجلاس منعقد ہوسکتا ہے۔ اس کا اطلاق ممکنہ طور پر زیرملازمت شخص کو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدے پر برقرار رکھنے پر ہو سکتا ہے۔ اگر اور کچھ نہیں تو اس )صورتحال( نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے ارد گرد غیر یقینی کا ماحول پیدا کر دیا ہے جو ادارے کے ساتھ ساتھ ان افسران کے لیے بھی حوصلہ شکن ہے جو فوج کی کمان سنبھالنے کے لیے براہ راست قطار میں ہیں۔ یہ اس قدر بے دردی سے اور عوامی سطح پر کیوں کیا جا رہا ہے؟ کون سی قوتیں ہیں جو مجرموں، مفروروں اور مجرموں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کے بے مثال طریقے اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں؟ اس عمل میں وہ پاکستان کو کیا بنانا چاہتے ہیں: ایک ایسی ریاست جس میں قانون کی حکمرانی نہ ہو، جو بے یقینی کا شکار ہو؟
عمران خان کی لڑائی یہی تو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے راولپنڈی/اسلام آباد کی جانب رواں دواں آزادی مارچ کے شرکا کا لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک بھر کی سڑکوں پر نکل کر استقبال کر رہے ہیں ۔ مجرمانہ برسراقتدار حکومت نے جو انتہائی سخت اقدامات کیے ہیں وہ بھی لوگوں کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے باعث عمران خان کے موجود نہ ہونے کے باوجود ، درحقیقت منزل کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ہجوم بڑھتا اور جذبہ شدید ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ لوگوں کے ایک بہت بڑے اجتماع کی طرح ہے جن میں اپنی آزادی اور ووٹ کی طاقت سے اپنے لیڈروں کو منتخب کرنے کے اپنے ناقابل تنسیخ حق کے حصول کے خواب نے توانائی بھر دی ہے۔
یہ ایک بہت بڑا بحران ہے جس میں یہ ملک ڈوبا ہوا ہے۔ وہاں سے اسے بازیافت کرنا ایک مشکل چیلنج ہوگا۔ ہم کہاں سے اور کب شروع کریں؟ ہم کیسے آگے بڑھیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر بحث ہونی چاہیے بجائے اس کے کہ کسی شخص سے متعلق بل کی منظوری دی جائے جس کی وجہ سے پورے ادارے کے لیے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہوں۔ کافی پاگل پن یہاں نمایاں ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کی ہوس بھری جستجو میں، مجرم حکمران ادارے کو نقصان پہنچانے، یہاں تک کہ ریاست کی بقا کو بھی خطرے میں ڈالنے پر آمادہ ہیں۔ تصور کریں کہ ایک مجرم اور مفرور، ملک اور اس کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کر رہا ہے! اس مضحکہ خیزی کو الفاظ میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ملک کو مجرموں کے اتحاد کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اسے اس دہانے پر دھکیل دیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہ ہو۔
یہ ٹھہر جانے کا وقت ہے۔ ملک ڈوب رہا ہے۔ زوال کو فوری طور پر روکا جائے۔ یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب موجودہ حکمرانوں کو نکال باہر کیا جائے، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد اور ایک ایسی حکومت کی راہ ہموار کی جائے جسے عوام کا غیر متزلزل مینڈیٹ حاصل ہو۔
دور بجتے ڈھول کی آواز قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ انتخاب آسان ہے: یہ مجرم یا پھر ملک۔ اس میں ہر پاکستانی کا حصہ ہے۔ ان گدھوں کو روکنے کے لیے آواز بلند کرنے کا وقت آگیا ہے جو اپنے پنجے پھیلائے، بھوکی نظروں کے ساتھ اوپر منڈلا رہے ہیں ۔