حنان آر حسین

18th Dec, 2022. 09:00 am

عرب چین تعلّقات

ریاض اعلامیہ عرب دنیا میں چینی سفارت کاری کے مرکزی اُمور میں امن پر مرکُوز سوچ کے ساتھ سامنے آیا ہے

مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

اگر عرب چین تعلّقات کو مضبوط تزویراتی اشتراک کے مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہے تو یہ ہمارے سامنے ہے۔

ایک تاریخی اقدام کے طور پر چین اور عرب لیگ کے رکن ممالک کے رہنماؤں نے حال ہی میں پہلی چین – عرب سربراہی اجلاس کے اختتام پر “ریاض اعلامیہ” جاری کیا۔ مشترکا معاہدہ دونوں تہذیبوں کے باہمی تعلّقات کو گہرا کرنے کے لیے اجتماعی بصیرت کے طور پر کام کرتا ہے، کیونکہ مشترکا مفادات بنیادی خود مختاری کے مسائل، مضبوط اقتصادی پیشکشوں اور یکطرفہ مداخلت کے خلاف اصولی دباؤ پر محیط ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ، “(قومیں) مشترکا تعاون کے بندھن کو مضبوط بنانے، عرب اور چینی فریقوں کے درمیان تزویراتی شراکت داری کے تعلّقات میں جدّت لانے، ہمارے عوام کے درمیان تاریخی تعلّقات اور ہماری دو قدیم تہذیبوں کے درمیان بھرپور تعامل کی قدر کرنے کی خواہش رکھتی ہیں”۔ اس طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ ترقّی پر مرکوز دو طرفہ فاتحانہ تعاون اور خودمختاری کے درمیان ایک نازک توازن، چین – عرب اشتراک کے مُستقبل کو بدلتا ہے۔

خود مختاری کے مسائل پر چین کے عرب اتحادیوں کی جانب سے تائیوان تنازع کی مکمل و واضح حمایت ایک قابل قدر مدد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی صوبے کو چین کا اندرونی حصہ قرار دیا گیا ہے اور عرب ممالک متحدہ چین (ون چائنا) کے اُصول پر پُرعزم ہیں۔ بیجنگ کی طرف سے یکجہتی پائیدار ہے اور انسانی حقوق کی سیاست کی شدید مخالفت ہے۔ مزید برآں جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے، یہ عرب دنیا کی آزادانہ ترقّی کی رفتار کا احترام ہے جو تمام کاروباری، شہری اور سفارتی شراکت داروں کے تعلّقات کو نمایاں کرتا ہے۔ عرب دنیا میں پھیلے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) جیسے ترقّیاتی اقدامات کی کامیابیوں میں کوئی بھی آسانی سے شریک ہو سکتا۔ کسی کو بھی بے فیض سیاست یا طویل عرصے سے مغربی مداخلت کا اشارہ دیتے نظریاتی انداز سے کبھی منسلک نہیں کیا گیا ہے۔

Advertisement

درحقیقت گزشتہ دہائی کے دوران تجارت میں 100 ارب امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، اور عرب دنیا اپنے عوام کو ترقّی پسند بااختیار بنانے کا مقصد جاری رکھے ہوئے ہے۔ مؤخر الذکر اپنے ہاں چین کی انسانیت مرتکز سرمایہ کاری سے قدرتی ہم آہنگ ماحول تخلیق کرتے ہوئے تجارت کو 100 ارب ڈالر کی نمو کے سنگِ میل سے آگے فروغ دینے کے لیے نئے شعبے پیش کرتا ہے۔ یہ بات کسی سے بھی چھپی نہیں کہ چین اور عرب دنیا کے درمیان “مشترکہ مستقبل” کا تصوّر اُن کی نمایاں اقتصادی کاوشوں سے مضبوط ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، امن، ترقی، شفافیت، انصاف، جمہوریت اور آزادی پر مُحیط “مشترکا انسانی اقدار” عالمی امن کے لیے اشتراک کا ایک نیا راستہ پیش کرتی ہیں۔

دلچسپ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مشرقِ وُسطیٰ کی بااثر ترین اقتصادی طاقت ہونے کے ناطے سعودی عرب کے چین سے ہمیشہ مضبوط ہوتے معاشی اور توانائی کے تعلّقات خطے کے لیے وسیع مفادات کے حامل ہیں۔ بہرحال چینی صدر شی جن پنگ کے تاریخی دورے کے دوران سرمایہ کاری کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں جس سے ریاض اور بیجنگ کے اعزازی ترقیاتی تصوّرات وقت کے ساتھ ساتھ مزید یکجا ہو سکتے ہیں۔ دونوں ممالک نے علاقائی روابط اور خطے کے وسیع تجارتی روابط کی ترقّی کو اہمیت دی ہے جس سے انفراسٹرکچر، توانائی، ٹرانسپورٹ اور ڈیجیٹل معیشت میں مستقبل کی پیش رفت عرب دنیا کے لیے ایک بڑا فائدہ ہے۔

جہاں ریاض اعلامیہ عالمی اقتصادی ترقّی کو فروغ دینے کے لیے “متوازن نقطہء نظر” اپنانے کی ضرورت کو سامنے لایا ہے، وہاں یہ تمام ریاستوں کے لیے مساوی مفادات کی حساسیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس مؤقف کو اس میں شامل بہت سے فریقوں کی سرمایہ کاری کی خاطرخواہ صلاحیت کی حمایت اور یہ فہم کہ توانائی کے تحفظ سے جڑے تعلّقات امن و سلامتی کے حصول میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، حاصل ہے۔

یہ سمجھ لیں کہ اقتصادی ترقّی کے لیے اس طرح کے نقطہء نظر سے اس وقت بہت سے مغربی ممالک محروم ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ نے اس مفروضے کو قبول کیا ہے کہ اقتصادی جبر، توانائی کی فراہمی میں کمی، اور تیل کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا لاگت سے زیادہ فائدہ دیں گے۔ لیکن جیسا کہ یوکرین اور روس کی جنگ سے ظاہر ہوتا ہے، تناؤ بڑھانے کی کوششوں نے صرف ملکی عدم اطمینان میں مزید اضافہ کیا ہے، اور ترقّی کے امکانات کو اُن کے اپنے نقصان تک کم کر دیا ہے۔ اس کے برعکس تیزی سے مقبول ہوتے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئیٹیو (جی ڈی آئی) جیسے قیمتی منصوبے توانائی کے چیلنجوں کے لیے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ عرب چین کمیونٹی کے لیے ترقّی اور ترقّیاتی حکمتِ عملیوں کی منصوبہ سازی کو آسان بناتے ہیں۔ اسی دوران چین اور دیگر بڑی عرب معیشتوں میں اعلیٰ درجے کی سرمایہ کاری کا تسلسل ہے جس سے ممالک کو اس طرح کی بامعنی کوششوں کو فروغ دینے پر توانائیاں مرکوز کرنے کی گنجائش ملتی ہے۔ یہ تعلّق امریکی ’’ہمیشہ کی جنگوں‘‘ اور غیرضروری جغرافیائی سیاسی مداخلت کے نقصانات سے محفوظ ہے۔

آخر میں ریاض اعلامیے کو مذاکراتی امن کو فائدہ پہنچانے کے کثیر جہتی عالمی تعاون کے استعمال کے لیے یاد رکھنا چاہیے۔ ایک معاملہ فلسطینیوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے کثیر جہتی نقطہء نظر ہے جو کئی دہائیوں سے چین کی مشرق وسطیٰ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ، “(ریاستیں) مسئلہء فلسطین کے حل کے لیے وسیع تر شراکت، اچھی ساکھ، زیادہ اثر و رسوخ کے ساتھ ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتی ہیں، اور مسئلہء فلسطین پر چین کی جانب سے اقدامات اور نظریات کا ایک سلسلہ پیش کیا گیا ہے”۔ اسرائیل کے یکطرفہ طرزِعمل کے باطل ہونے پر گہری توجہ، نیز جمود کو چیلنج کرنے کی اسرائیلی منصوبہ بندی فلسطین پر چین عرب اتحاد کو اجتماعی طور پر مستقبل کے لیے قیمتی ثابت کرتے ہیں۔

بالآخر ریاض اعلامیہ عرب دنیا میں چینی سفارت کاری کے مرکزی اُمور میں امن پر مرکُوز سوچ کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ یہ اربوں پر مُحیط بڑے پیمانے پر دو طرفہ فاتحانہ ترقّی کے مواقع کو بھی نئی تحریک دیتا ہے۔

Advertisement

دونوں تہذیبوں نے عالمی سطح پر جو تعاون پر مبنی کردار ادا کیا ہے، اِس کے پیشِ نظر اِن کا معاشی اثر اور سفارتی علامت ایک مُنقسم عالمی نظام میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔

Advertisement

Next OPED