حمزہ حسین

09th Oct, 2022. 09:00 am

لاطینی امریکہ کے لیے لمحہ فکریہ

جنوبی امریکہ کے سب سے اہم ممالک میں سے ایک میں ہونے والے انتہائی سخت اور تقسیم پیدا کرنے والے انتخابات کے بڑے پیمانے پر علاقائی مضمرات ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے پاپولسٹ جیر بولسونارو کا مقابلہ سابق صدر لولا ڈا سلوا سے ہے، ایک ایسا انتخاب جس میں جارحانہ بیانات تو دوسری جانب عوامی جذبات گڈمڈ ہوچکے ہیں۔ فیصلہ کن برتری نہ ملنے کی وجہ سے اب ووٹوں کا دوسرا مرحلہ ہوگا۔ ابتدائی پولز کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے دونوں فریقین کے پاس برازیلیا کی مسند اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع ہے۔

انتخابات سے پہلے، برازیل کو کووڈ-19 کی موجودگی سے انکار، ایمیزون کے جنگلات میں آتش زدگی ، مشکلات کا شکار معیشت اور وسیع پیمانے پر بے روزگاری نے متاثر کیا ہے۔ BRICS کے ایک رکن – برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ – اور مرکوسور کے ایک اہم جزو، برازیل میں اوسط شہریوں کو آمدنی کی بدترین عدم مساوات کا سامنا ہے جس کے مکمل ازالے کی ضرورت ہے۔ سیاحت، کھیل اور متنوع ثقافتوں پر انحصار کرنے والی معیشت اچانک مشکلات میں گھر گئی کیونکہ کولمبیا کے گسٹاو پیٹرو جیسے بائیں بازو کے رہنماؤں کے عروج اور گیبریل بورک جیسے موجودہ لوگوں کے استحکام کی طرف توجہ مبذول ہوگئی۔ تاہم، برازیل میں، نوآبادیاتی نظام اب بھی مضبوط ہے کیونکہ قیادت قومی مفاد کی قیمت پر واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کے تقدس پر یقین رکھتی ہے۔

یہ بالکل وہی منظرنامہ ہے جہاں لولا ڈا سلوا کی آمد ہوئی۔ وہ رشوت ستانی کے الزام میں قید ہوئے اور 580 دن جیل میں گزارے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصلے میں عدالتی تعصبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کے کیس کو جس طریقے سے چلایا اور مٹایا گیا وہ انصاف کے لیے ایک دھوکہ تھا۔ ڈا سلوا اس فیصلے کے کالعدم ہونے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں پچھلی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ میں بعض عناصر کی حمایت یافتہ دائیں بازو کی لابی نے نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا ہے جو عام برازیلی لوگوں کے لیے مشکلات کو کم کر سکتا ہے اور سماجی بہبود کے پروگراموں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ قومی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کار اس بات سے متفق ہوں گے کہ اسی وجہ سے وہ انتخابات کے ابتدائی مراحل میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس کے بعد بدنام زمانہ جائر بولسونارو آتے ہیں۔ موجودہ صدر سماجی اخراج کے ایجنڈے کے ثبوت کے طور پر اپنے تفرقہ انگیز اور تقسیم کرنے والے خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی اسلامو فوبک اور تارکین وطن مخالف بیان بازی، بھدے سرمایہ دارانہ نظام سے لیس ہے جس نے صرف برازیل میں اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا، اور اصلاحات کے ابتدائی وعدے کے باوجود اور برازیل کو بدعنوانی کے داغدار ماضی سے نئی بلندیوں تک لے جانے کے باوجود ملک میں زبردست بدامنی کا باعث بنی۔ بولسونارو اب بھی برازیل میں بے حد مقبول ہیں اور ان کی لبرل پارٹی کا ایک وسیع اور متحرک حلقہ ہے۔ ووٹنگ کے دوسرے مرحلے )رن آف ووٹ ( میں پہنچنے تک ، بولسونارو نے اپنے حریف دا سلوا کو صرف معمولی فرق سے پیچھے چھوڑا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ساؤ پالو سے لے کر ریو ڈی جنیرو تک، لبرل پارٹی کے پاس اب بھی کافی حد تک رسائی ہے۔

مخالف کی نظریات کی حامل جماعتیں ، اور دوسرے فریق کے نقصان کے لیے چنگھاڑتے امیدوار اور ان کے کٹر حامیوں کے پیش نظر، یہ انتخابات برازیل کی تاریخ کے سب سے متنازعہ انتخابات میں سے ایک ہے۔ بہت سے عام برازیلین اس بات پر قائم ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو وہ نتائج پر سوال اٹھائیں گے اور ڈا سلوا کے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کی مخالفت کریں گے۔ ڈا سلوا کی پارٹی میں بائیں بازو کی وکالت کو داغدار کرنا بولسنارو کی خوفناک پالیسی سازی کو چھپانے کا ایک آسان ذریعہ بن رہا ہے جس نے لاک ڈاؤن میں رہنے اور یوکرین کی جنگ کے اثرات کو محسوس کرنے کے باوجود لاکھوں برازیلیوں کے مصائب سے انکار کردیا۔ بولسنارو کے ہنگری میں وکٹر اوربان، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے ساتھ قریبی تعلقات کا مطلب یہ بھی ہے کہ برازیل کے لیے کثیرالجہتی اور علاقائیت کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے جو کہ دا سلوا کے اصولوں کے خلاف ہے۔

Advertisement

میرٹ کی بنیاد پر حقائق کا جائزہ لینے کی خواہش رکھنے والے زیادہ تر تجزیہ کار یہ دعویٰ کریں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اہم حریف برنی سینڈرز نے بائیں بازو کے سوشلسٹ لولا ڈا سلوا کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسرے تجزیہ کار یہ دعویٰ کریں گے کہ بولسنارو کا برازیل کی عدلیہ کو متاثر کرنے میں اہم کردار تھا جو ان کے سیاسی حریف کے خلاف مقدمات قائم کرنے میں دنیا کی بدعنوان ترین عدلیہ میں سے ایک ہے۔ اگر دونوں صورتیں درست ہیں، تو بولسونارو کے حامیوں کی جانب سے جمہوری آزادیوں کو برباد کرنے کی دھمکی دینے والے نتائج کو قبول نہ کرنے کے واضح اعلان کے ساتھ برازیل کی داخلی سیاست میں زبردست سماجی انارکی پھیل سکتی ہے۔

جیسا کہ دنیا بھر کے ممالک کا معاملہ ہے، پاپولزم کی ابتدائی قبولیت کے باوجود ناکامی بائیں بازو کی، اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعتوں کے اقتدار میں آنے کی ایک وجہ ہے۔ برازیل بھی اس معاملے میں مختلف نہیں ہے۔

کثیرالجہتی بین الاقوامی ہم آہنگی کی کلید ہے اور برکس BRICS) ( کے رکن اور لاطینی امریکہ میں ایک بااثر اقتصادی کھلاڑی کے طور پر برازیل نے اپنے مرکزی اصولوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر لبرل پارٹی مرکز میں حکومت بناتی ہے تو برازیل کی بڑھتی ہوئی تنہائی کے خلاف بولسنارو کی تنقید کا انحراف ایک بار پھر زور پکڑ سکتا ہے۔ ڈا سلوا، اپنے سوشلسٹ نظریات کے باوجود، اب بھی برازیل کے لیے عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر دوبارہ ابھرنے کے لیے موزوں ترین انتخاب ہوگا کیونکہ یک رخی نظام )یونی لیٹرل ازم ( بین الاقوامی نظام کو مزید کمزور کر دے گا۔

نتائج سے قطع نظر، لاطینی امریکہ میں یہ انتخاب براعظم کے سب سے بڑے اور بااثر ممالک میں سے ایک کے لیے خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔ برازیل کو اصلاحات سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے جس میں اپنے بین الاقوامی موقف کو بحال کرنا اور ایک ایسے خطے میں زیادہ ہم آہنگی کو فروغ دینا شامل ہے جو معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور بڑی حد تک امریکی سامراج کے زیر اثر بائیں بازو کے نظریات کی طرف منتقل ہوا ہے۔ اگرچہ ریاستہائے متحدہ کے ساتھ معاملات کرنا ضروری ہے مگر برازیل ایک توازن قائم کرنا چاہے گا اور یہ توازن اسی وقت ممکن ہوگا جب ڈا سلوا اقتدار میں ہوں۔

مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

Advertisement

Next OPED