اعلیٰ تعلیم کے نقصانات
بلوچستان متعدد وجوہات کی وجہ سے چینی حکومت اور اس کے عالمی شراکت داروں کی توجہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ صوبے کا جغرافیہ ہے جو اسے نمایاں کرتا ہے۔اس صوبے نے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا مشاہدہ کیا ہے ۔ترقی کے لیے چینی نقطہ نظر مربوط اور حقیقت پسندانہ ہے، کیونکہ ان کی توجہ بنیادی انفراسٹرکچر اور انسانی ترقی پر مرکوز ہے اور چونکہ تعلیم انسانی ترقی کے سب سے مضبوط اشاریوں میں سے ایک ہے، اس لیے چین نے پاکستانی طلباء کے لیے وظائف کے ساتھ ساتھ کاروبار اور تجارت میں تعاون بڑھانے کی راہیں
کھولی ہیں ۔ 29 ستمبر کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے چینی سفیر مسٹر نونگ رونگ کو چینی یونیورسٹیوں کے لیے وظائف سے نمٹنے کے لیے ون ونڈو سروس کے قیام کی تجویز دی ہے۔ یہ تجویز سفیر کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دورے کے دوران دی گئی جہاں چینی یونیورسٹیوں میں شامل ہونے والے 36 طلبا کے لیے روانگی سے پہلے ایک تقریب بھی منعقد کی گئی۔
ایچ ایس سی کے مطابق اب تک 193 پاکستانی طلباء کو چینی حکومت کے اسکالرشپ پروگرام کے تحت وظائف د یئے جا چکے ہیں، جن میں 2019ء میں 40، 2020ء میں 58، 2021ء میں 59 اور رواں سال 36 شامل ہیں۔ لیکن پاکستانی طلباء کو چین میں اپنی یونیورسٹیوں میں واپس جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ عالمی وبا کورونا نے چین کے بارے میں افواہوں کو جنم دیتے ہوئے عوام کی بھرپور توجہ حاصل کرکے خوف کی فضا قائم کردی تھی ۔ جب کوئی ادارہ اعلیٰ تعلیم کے وظائف سے متعلق ہوتا ہے، تو وہ بنیادی طور پر بین الاقوامیت کے موضوع سے نمٹتا ہے۔
جب پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے طلباء بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں تو وہ اتنی ہی تعلیمی قابلیت لے کر وہاں جاتے ہیں جتنی انہوں نے یہاں کے تعلیمی نظام میں رہتے ہوئے حاصل کی ہوتی ہے۔ اس لیے چین جیسے ترقی یافتہ ملک میں اچھی رینکنگ کی عالمی یونیورسٹی تک پہنچنا ان کے لیے کوئی معمولی بات نہیں ہوتی ۔ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جن کے بارے میں فیصلہ سازی سے پہلے بات کرنے اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان میں،یہ تاثر عام ہےکہ اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں طلباء کی بنیادی شخصیت کی خصوصیات کو تبدیل کردیتی ہیں ۔ شکر ہےکہ حکومت نے پرائمری تعلیم کے طالبانائزڈ نصاب کو ختم کر دیا ہے، لیکن اسکول کی سطح پر طلبہ کی بتدریج بنیاد پرستی کا مقابلہ یونیورسٹیوں میں زینو فوبیا کے لیے نہیں کیا جا سکا اور اکثر یونیورسٹیوں میں مذہب اور قوم پرستی کے نام پر نفرت کو ہوا دی جاتی ہے،اور جو چیز یہاں مزے لیتی ہوئی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ نفرت کے تحت اٹھائے جانے والے کچھ اقدامات کو تحقیقی منصوبوں کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔
پا کستان کے قیام کے بعد، امریکا نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلیے پاکستانیوں کی توجہ حاصل کرلی ہے ، پاکستانی اب برطانیہ کے بجائے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےلیے امریکا کا رخ کرتے ہیں ۔ کئی دہائیوں گذرنے کے باوجود امریکا نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہے، جس کے بعد یورپ کا نمبر آتا ہے۔امریکی بن کر وہاں زندگی گذارنے کا خواب ہماری نسلوں میں منتقل ہوتا جا رہا ہے ، یہی وجہ ہےکہ اب بیشتر پاکستانی خود کو بطور امریکی متعارف کرانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔
پاکستان اگرچہ جغرافیائی طور پر چین کے قریب اور امریکا سے بہت دور ہے لیکن امریکا نے اس فاصلے کو کامیابی کے ساتھ ماس کمیونیکیشن کے ٹولز کے موثر استعمال سے کافی حد تک کم کردیا ہے ۔ پاکستان میں، لوگ امریکا کو یورپ کے ساتھ ایسے جوڑتے ہیں ، حاللانکہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔
جب سابق صدر پرویز مشرف ایچ ای سی کا قیام عمل میں لائے ، تو انہوں نے شعوری طور پر اس میں ترامیم کرکے اسے ادارہ جاتی شکل دی، جس سے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے امریکا اور یورپی یونین میں زیادہ تر معاملات میں خصوصی مراعات متعارف کرائی گئیں۔چونکہ یہاں کی یونیورسٹیاں اپنی ترقی، کام کاج اور مطالعاتی مواد کے لیے پہلے سے ہی امریکا اور یورپی یونین کی نظر میں اہمیت کی حامل ہیں ، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم مغرب کی جانب سفر کر رہی ہے۔یہ ایک یک طرفہ سفرہے، جس کے نتیجے میں تعلیم کے معیار میں کوئی بہتری نہیں آتی۔
پاکستانی طلباء تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں، لیکن بعد میں ملازمت یا کاروبار شروع کر کے معاشی مسائل کے حل تلاش کرلیتے ہیں ۔اپنے آبائی ملک لوٹنے والوں کی اکثریت وہ ہے جنہیں مغرب میں آباد ہونے میں متعدد بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے بعد وہ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے کلیدی دفاتر میں رکھے جاتے ہیں، جس سے مقامی ٹیلنٹ کی نشوونما میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں ۔ یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں شاید ہی دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں جگہ حاصل کرپائی ہیں ۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کا یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ اعلیٰ تعلیمی نظام بدمزاجی کا عنصر پیدا کر رہا ہے۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم نے چینی اساتذہ کے خلاف بلوچ قوم پرستوں اور جنونیوں کے تشدد کا مشاہدہ کیا ہے اور ان ثقافتی جھٹکوں کی شدت جو پاکستانی طلباء چین جانے یا امریکا سے واپسی کے وقت محسوس کرتے ہیں تقریباً اسی طرح کے ہیں ۔ یہی وجہ یہ ہے کہ سماجی سائنسدان فیصلہ سازی کے عمل میں حوصلہ شکنی کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی نظام کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی اصلاح کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔






