ڈاکٹر ہما بقائی

21st Aug, 2022. 09:00 am

عام آدمی کی قومی مالیاتی دھارے میں شمولیت

ہائی ٹیک ایجادات اور ڈیجیٹلائزیشن ہمارے معاشروں اور ہماری زندگیوں کے افعال اور ڈھانچے کو تبدیل کر رہی ہے۔ اسی پر “نالج اکانومی” کا انحصار ہے۔ نالج اکانومی خوشحالی و تنوع کو احترام دینے کی خاطر سماجی اتفاق رائے کے علاوہ معلومات کو اہمیت اور خیالات و اختراعات کو فروغ دینے کا نام ہے۔ نالج اکانومی لازمی طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مُنسلک ہے۔ اِس حوالے سے چھ ٹیکنالوجیز اہم ہیں جن میں مصنوعی ذہانت، مائیکرو الیکٹرانکس، انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی)، ٹیلی کمیونیکیشن، بائیو ٹیکنالوجی اور روبوٹکس شامل ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز دنیا بھر میں کاروباری شعبے میں انقلاب برپا کر دیں گی۔ ان کے مُضمرات لیبر مارکیٹ اور سیاسی شرکت پر بھی ہیں۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کاروباری اداروں کے کاروبار کرنے اور اپنے صارفین اور سپلائرز کے ساتھ روابط کے انداز کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی کی معاملہ فہمی اور وہ طریقے جن کے ذریعے یہ معیشت کو متاثر کرتی ہے، مالیاتی انتظام کے لیے تیزی سے متعلقہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ترقی پذیر معیشتوں کے لیے یہ اور بھی اہم ہے۔ ڈیجیٹل تبدیلی تجارت، مالیاتی شمولیت، مارکیٹ کی مسابقت اور معاشی دستاویزات کو بڑھا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس کی ابتدا کرتے ہوئے گوگل کمیشن کی رپورٹ”اَن لاکنگ پاکستانز ڈیجیٹل پوٹینشل” میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی سے پاکستان کو 2030ء تک 97 کھرب روپے کی سالانہ اقتصادی مالیت تک رسائی حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو 2020ء میں ملک کے مجموعی جی ڈی پی کے تقریباً 19 فیصد کے برابر ہے۔

پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں میں لوگوں کی اکثریت کو بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں ہے جو ایک غیر منصفانہ معاشرے کو جنم دیتا ہے اور کسی فرد کی سماجی اور معاشی بہبود کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کے تقریباً 80 فیصد حصے کو بینکنگ سہولیات حاصل نہیں اور وہ مالی طور پر پسماندہ ہے۔ معاشرے میں رائج ڈیجیٹل تقسیم اور صنفی امتیاز بھی اس میں مزید کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) متعلقہ وزارتوں، ریگولیٹری باڈیز، ایڈہاک کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز کے ساتھ مل کر اعلیٰ معیار کی کنیکٹیویٹی اور ڈیجیٹل خدمات تک رسائی بڑھانے کے ساتھ ساتھ عوامی شمولیت کے فروغ، ای کامرس، اور تجارتی دلچسپی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومت کی توجہ اب ڈیجیٹل شمولیت اور نالج اکانومی کی تعمیر پر مرکوز ہے۔ اس اقدام کا باقاعدہ آغاز 2015ء میں قومی مالیاتی شمولیت کی حکمت عملی (NFIS) کی نقاب کشائی سے ہوا۔

NFIS چار کلیدی شعبوں پر مرکوز ہے یعنی ڈیجیٹل ٹرانزیکشن اکاؤنٹس کو فروغ دینا اور بھاری ادائیگیوں کے ذریعے مطلوبہ پیمانے پر پہنچنا، مقاماتِ رسائی کو پھیلانا اور متنوع کرنا، مالیاتی خدمات فراہم کرنے والوں کی صلاحیت کو بہتر بنانا، اور آخر میں مالی آگاہی اور صلاحیتوں کی سطح میں اضافہ کرنا۔

Advertisement

بڑھتی ہوئی مالیاتی شمولیت، دستیابی اور مساوی مواقع کے ساتھ تمام پاکستانی سستی مالیاتی خدمات اور مصنوعات جیسے ڈیجیٹل لین دین، ادائیگیاں، بچت سرٹیفکیٹس، فوری قرض اور انشورنس تک رسائی حاصل کر سکیں گے جو ان کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ یہ خاص طور پر ہمارے معاشرے کے پسماندہ، کم سہولیات اور کم آمدنی والے طبقات کی ترقی میں مدد کرے گا۔

درحقیقت پاکستان نے بہت سے دیگر ممالک سے پہلے مالیاتی شمولیت کو قومی ترجیح کے طور پر اپنا لیا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں مائیکرو فنانس سیکٹر کی معاونت اور 2001ء میں حکومت نے مائیکرو فنانس بینکوں کے قیام کی اجازت دینا شروع کی۔

ہم 2008ء میں برانچ لیس بینکنگ کے ضوابط کو اپنانے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھے جس نے ملک میں ڈیجیٹل مالیاتی خدمات متعارف کرانے کی راہ ہموار کی۔ 2010ء میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت حکومت نے خواتین کے ذریعے 60 لاکھ غریب گھرانوں کے امدادی تحفظ کے نظام کو ڈیجیٹائز کرنا شروع کیا۔

حالیہ فنانشل انکلوژن انسائٹس (FII) سروے 2020ء کے مطابق پاکستان میں سرِفہرست مالیاتی شمولیت کا تخمینہ 21 فیصد لگایا گیا ہے جو 2017ء میں آخری لہر کے بعد سے 7 فیصد پوائنٹس (PPT) تک بڑھی ہے۔22 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی موبائل اکانومی ہے اور اس کی 85 فیصد زیادہ آبادی کی موبائل فون تک رسائی ہے۔ توقع ہے کہ 2023ء تک پاکستان میں موبائل انڈسٹری کا معاشی حصہ تقریباً 24 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا جو کہ جی ڈی پی کا 6 اعشاریہ 6 فیصد بنتا ہے۔ اس طرح پالیسی سازوں کے درمیان مالیاتی طور پر شامل موبائل بینکنگ طریقِ کار کے ذریعے مالیاتی رسائی بڑھانے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

14 دسمبر 2021ء کو بینکنگ خدمات سے محروم آبادی کو رسمی بینکنگ خدمات کے دائرہ کار میں لانے کے مقصد سے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مشترکا کاوشوں سے آسان موبائل اکاؤنٹ (AMA) اسکیم کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ آسان اکاؤنٹ کا ہدف”عام لوگوں” پر مرکوز ہے۔ یہ بینکنگ خدمات سے محروم یا کم رسائی رکھنے والے تمام کم آمدنی والے افراد کے لیے دستیاب ہے جنہیں اکاؤنٹ کھولنے میں پیچیدہ ضروریات یا رسائی کے کم ذرائع کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آسان موبائل اکاؤنٹ AMA مالیاتی شمولیت کو بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے جہاں صارفین اپنے موبائل فون خدمات فراہم کنندگان کے ذریعے مالی لین دین کرنے کے قابل ہوں گے، جس سے وہ اپنے موبائل فون کو مالیاتی رسائی کے ذریعے میں تبدیل کر سکیں گے۔ آسان موبائل اکاؤنٹ AMA اسکیم کی مدد سے 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی پاکستانی شہری ایک درست شناختی کارڈ اور بائیو میٹرک تصدیق شدہ سم کے ساتھ کسی بھی شریک بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھول سکتا ہے۔ اِس کا مقصد  NFISکے ہدف کے ساتھ کم از کم 50 فیصد بالغ مرد و خواتین تک باضابطہ مالی رسائی کو بڑھا کر عالمی مالیاتی رسائی حاصل کرنا ہے۔

Advertisement

جیسا کہ ڈیجیٹلائزیشن کو تیز کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ریگولیٹری خدشات بشمول کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیٹا پروٹیکشن اور سائبر سکیورٹی کے ضوابط پہلے سے زیادہ دباؤ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ جدت اور ڈیجیٹائزیشن کی حوصلہ افزائی کرتے ماحول کے ساتھ حفاظتی ضوابط میں توازن پاکستان کو ایسی نئی ٹیکنالوجیز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے قابل بنائے گا جو بہت زیادہ عوام دوست اور غریب دوست ہیں۔

پاکستان میں مالیاتی شمولیت کی کاوشوں پر گفتگو جناب اکرام سہگل اور ان کے خاندان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے جنہوں نے اس اقدام کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انتھک محنت کی۔ ایک دہائی تک اُن کے قریبی خاندان نے “فنانشل سروسز اینڈ ٹیکنالوجی ڈویژن” کے ذریعے مالی شمولیت کی انسانی اور اقتصادی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے ایک انٹرپرائز میں سرمایہ کاری کی جس میں فلیگ شپ کمپنی، ورچوئل ریمیٹینس گیٹ وے شامل ہے۔

گزشتہ 7 برسوں کے دوران VRG نے مالیاتی اداروں اور موبائل ٹیلی کام آپریٹرز کے درمیان اہم انٹرفیس کنیکٹیویٹی لنک بنانے کے لیے تندہی سے کام کیا۔ چیلنج تھرڈ پارٹی سروس پرووائیڈرز (TPSPs) بنانا تھا۔ یہ 2017ء میں ورلڈ بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے سہولتوں کی فراہمی اور حوصلہ افزائی کے ذریعے ہوا۔ اس طرح ایک حقیقی غیر معمولی اسکیم وجود میں آئی جو موبائل سروسز آپریٹرز کو مالیاتی اداروں کےلیے ایک اہم جزو بن گئی۔

VRG  اگست 2020ء میں لانچ ہونے کے لیے پوری طرح تیار تھا لیکن پھر روایتی سُرخ فیتہ اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا جو ذاتی مفادات کے لیے ایک غیر سنجیدہ مقدمہ لے کر عدالت جا پہنچا۔ متعلقہ ہائی کورٹ نے اس غیرمنطقی درخواست کو مسترد کرنے میں 18 ماہ کا وقت لگا دیا۔ تاہم زیادہ نقصان نہیں ہوا اور شروعاتی لانچ نے دسمبر 2021ء میں بغیر کسی تشہیر کے دس لاکھ سے زیادہ صارفین حاصل کیے۔

سفیر منیر اکرم نے نیویارک میں یہ اسکیم UNDP کے ایڈمنسٹریٹر ایچم اسٹائنر کے ساتھ ساتھ چیف ڈیجیٹل آفیسر رابرٹ کو بھی پیش کی۔ مختلف پلیٹ فارم کے اِس انوکھے امتزاج کے لیے انہوں نے “حیرت انگیز”، “اعلیٰ” اور “شاندار” کے الفاظ  استعمال کیے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز، اعلیٰ اور شاندار حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان میں غریب، حق رائے دہی سے محروم، بے شناخت اور بے آواز 80 فیصد بالغ آبادی کے لیے ہے جنہیں بینک اکاؤنٹس اور اسی طرح بنیادی ذریعہء معاش تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

باضابطہ اشتہاری مہم کے بغیر بھی اب تک تقریباً 43 لاکھ آسان موبائل اکاؤنٹ رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جن میں شامل 13 بینکوں کے پاس برانچ لیس بینکنگ کے لائسنس ہیں۔ اس نے اب تک 42 کروڑ روپے سے زیادہ کی 40 لاکھ لین دین کی ہیں اور اس سے بھی زیادہ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں 18 فیصد معیاری بینک اکاؤنٹس کے مقابلے میں 32 فیصد آسان موبائل اکاؤنٹس AMA خواتین نے بنائے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مئی 2022ء میں ورلڈ اکنامک فورم میں پیش کیے گئے تھے جس کے گواہ خود مصنف ہیں۔

Advertisement

جب اکرام سہگل نے مئی 2022ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے “ایڈیسن الائنس سیشن” کے دوران موبائل والیٹ کے لیے “غریب مردوں کا ڈیبٹ کارڈ” کی اصطلاح استعمال کی تو ان سے شائستگی سے اسے “محروم افراد کا ڈیبٹ کارڈ” پُکارنے کو کہا گیا۔ درحقیقت اس کا مناسب عنوان “عام آدمی کا موبائل والیٹ” ہونا چاہیے۔

Advertisement

Next OPED