وزیر مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر کا دورہ کابل
مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کے دورہ کابل سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ ماہرین کے پاس اپنے قارئین کو بتانے کےلیے اس دورے سے زیادہ اہم موضوعات (مذہب، صنف )موجود ہیں ۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ملک کی ان چند اہم شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی سیکیورٹی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ وہ جب بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں آتے ہیں ،راہداریوں کو لوگوں سے خالی کرا دیا جاتا ہے جب کہ پارکنگ ایریا میں بھی سناٹا دکھائی دیتا ہے۔بلاول بھٹو کی پریس کانفرنسوں کے دوران اکثر صحافی حضرات کو موبائل فون ساتھ لے جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ۔وزیر خارجہ کی پارٹی نے ہمیشہ طالبان اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عوامی موقف اپنایا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
چند روز قبل بلاول بھٹو نے کھل کر کہا تھا کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔سب سے بڑھ کر، اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ طالبان ان کے ساتھ تصویر کھنچوائیں جنہیں بلاول بھٹو اپنے مخالفین کے دم توڑتے ووٹ بینک کو مزید نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرسکیں ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہےکہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کو 29 نومبر2022 ء کو کابل کے ایک اہم ترین دورے پر روانہ کیا گیا ہے۔
لیکن یہا ں بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان صنفی معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وزارت خارجہ نے دنیا کو ایک مثبت پیغام دینے کے لیے ایک خاتون وزیر کو ایک ایسے ملک میں بھیجا ہے جہاں خواتین عرصے سے اذیت ناک زندگی گذار نے پر مجبور ہیں ۔ ہمارے زیادہ تر تر مبصرین چونکہ سوشل میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں ، اس لیے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی یا دیگر بدسلوکی کے اقدامات کے خلاف بات کرنا ان ماہرین کی سرگرمی کا ایک لازمی عنصر ہے اور صنفی مسائل کے بارے میں ان کے تمام دلائل کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
آخر کار، ایک افغان کارکن، یوسف خان صدری نے مجھے بتایا کہ کچھ بھی ہو، حنا ربانی کھر کے دورے سے خواتین کے حق میں پیغام دینے کی کوششیں درحقیقت افغان خواتین کو بااختیار بنانے کی تمام کوششوں کے لیے ایک شدید دھچکا ثابت ہوسکتی ہے ۔ افغان کارکن نے سوال اٹھایا کہ طالبان کا ایک غیر ملکی خاتون کو عزت و احترام دینے کا کیا جواز ہے ؟ جب کہ وہ خود افغان خواتین کو سرعام مار پیٹ کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے ؟ یوسف خان صدری نے مزید کہا کہ اس متاثر کن رسمی سرگرمی کا مقصد بالکل فوت ہوگیا جب افغان آرمی چیف نے پاکستانی وزیر سے صرف اس لیے ملاقات سے انکار کردیا کیونکہ یہ خاتون ہیں ۔
مجھے یاد ہے جب 2011ء میں حنا ربانی کھر نے وزیر خارجہ کے طور پر بھارتی کا دورہ کیا تھا تو بھارتی میڈیا نے اس دورے کو اپنی ہیڈلائنز میں جگہ دی تھی ۔ہماری وزیر خارجہ کی شکل و صورت، انداز،لباس ، زیورات اور جوتے بھارتی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔کچھ اسی طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہیں۔ افغان طالبان کےزیراستعمال بڑے کالے جوتوں کے درمیان میں خاتون وزیر کی نازک سی چپل کی اصلی یا جعلی تصویر سوشل میڈیا پر خوب گردش کر رہی ہے۔
تاہم عالمی سفارتی پلیٹ فارمز اور میڈیا آؤٹ لیٹس اس ہائی پروفائل دورے کے نتائج کے بارے میں بحث میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
میں جس یونیورسٹی میں گزشتہ 15 سالوں سے میڈیا کی تعلیم دے رہا ہوں ،اس میں سب سے زیادہ تعداد افغان طلب کی ہے، ان میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا، اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے پاس پاکستانی جامعات میں پڑھنے والے تقریباً 10 ہزار افغان طلباء کا ریکارڈ موجود تھا، ان میں سے 1 ہزار طلباء بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد(آئی آئی یو آئی) میں زیر تعلیم تھے۔
بڑی حد تک، طالبان کے حامی یا مخالف، فارسی یا پشتو بولنے والے، تمام افغان لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ سب امریکہ یا یورپ جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ایسے ہی نوجوان افغانوں کا مشاہدہ بڑے آرام سے کیا جاسکتا ہے جو مغربی یونیورسٹیوں کو پیش کیے جانے کے لیے حوالہ جاتی خطوط کی تلاش میں ہیں اور وہ اپنی منزلوں پر پہنچنے کےلیے اسلام آباد کو صرف ایک راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔یہ نوجوان ہ بہت سی دوسری قومیتوں کے طلباء کے مقابلے میں بین الاقوامی امور سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر پریشان کن صورتحال برقرار ہے۔اسلام آباد کے سابق انسپکٹر جنرل اور اینٹی نارکوٹکس فورس میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنر ل کے عہدے پر فرائض انجام دینے والے عامر ذوالفقار نے مجھے ایک غیر رسمی ملاقات میں بتایا کہ ان کی فورس اکثر و بیشتر پاک افغان سرحد پرعالمی منشیات کے تقریباً پانچویں حصے کی اسمگلنگ کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔اقوام متحدہ کی تنظیموں سمیت کچھ عالمی اداروں کو پاکستان سے اسمگلنگ کو روکنے کے لیے بارڈر کنٹرول سخت کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ہی ، دیگر ممالک پاکستان سے انسانوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے سرحدی کنٹرول میں نرمی کی کوشش کرتے ہیں۔
جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو پاک افغان سرحد عالمی توجہ کا مرکز تھی۔امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک نے پاکستان سے ان لوگوں کی مدد کی درخواست کی جو وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ناروے اور سوئٹزرلینڈ جیسے کئی ممالک نے پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے ایک ایک سفیر تعینات کیا۔یورپی یونین، امریکہ اور یہاں تک کہ جرمنی کے بھی افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ہیں۔
ان نمائندوں نے سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے طالبان کے ساتھ کئی سالوں تک طویل مذاکرات کیے تھے۔جب ان کا سارا حساب غلط نکلا تو انہوں نے مدد کے لیے پاکستان کی طرف دیکھا اور پاکستان نے جواب دیا۔کابل میں آخری یہودی 83 سالہ تووا مرادی سمیت تمام مردوں اور خواتین کو امریکہ اور یورپی ممالک روانہ کر دیا گیا۔
مگر ان تمام ممالک میں جہاں افغان باشندے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں، نے اپنے سفارت خانے ختم کر دیئے، یہاں تک کہ اپنے مقامی عملے کو کابل سے واپس بلا لیا۔انہوں نے پاکستان کو اسلام آباد سے اپنے سفارت کاروں کو کام کرنے کی سہولت فراہم کرنے سے نہیں روکا، جہاں طالبان حکومت کا پہلا سفارت خانہ یا پروسیسنگ سینٹر بھی قائم کیا گیا تھا۔
اسی طرح چین، روس، قطر وغیرہ کے علاوہ کسی نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر اتفاق نہیں کیا۔ لیکن ان سب نے پاکستان کو طالبان کے لیے اپنے مطالبات کی فہرست سونپ دی۔وہ چاہتے ہیں کہ طالبان خواتین، بچوں، آزادیوں، قانون کی حکمرانی، تعلیم، مزدوروں کے حقوق، جمہوریت کا احترام کریں ۔
پاکستان نے ان کے مطالبات طالبان تک پہنچائے اور بدلے میں طالبان کے مطالبات جیسے کہ منجمد فنڈز کی رہائی اور ان کی حکومت کو تسلیم کیا گیا۔سفارت کاری میں تحقیق کی کمی کی وجہ سے پاکستان اس عمل میں اپنی غیرجانبداری کھو دیتا ہے۔نتیجے کے طور پر، افغان عوام طالبان کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں اور دنیا پاکستان کو طالبان کے ناقابل اعتماد ہینڈلرز کے طور پر سمجھتی ہے۔
یہاں تک کہ وزیر مملکت حنا ربانی کھر کا دورہ کابل کسی بھی طرح سے کوئی حل پیش نہیں کرتا کیونکہ پاکستان میں حل تلاش کرنے کے لیے سفارتی پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ہمارے تمام آپٹکس تھنک ٹینکس بن چکے ہیں اورہماری اکیڈمیاں بھی جو کچھ کر رہی ہیں اس میں وہ کافی مہارت حاصل کرچکی ہیں ۔