اوسط پسندی کا جشن
جب تعمیری تنقید کو حب الوطنی سے جوڑا جائے تو اِس کے نتیجے میں بارودی سرنگوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے
بد قسمتی سے حال ہی میں مجھ سے ایک پاکستانی فلم دیکھنے کی غلطی سرزرد ہوئی جس کی کچھ سرکردہ فلمی ناقدین نے بھرپور تعریف کی تھی۔ شاندار تھرلر، ایڈونچر سے بھرپور، ایک نئے دور کی انتقامی فلم، پاکستان میں اپنی نوعیت کی اوّلین فلم جو پاکستانی سنیما کے بارے میں آپ کے تاثر کو بدل کر رکھ دے گی ۔۔ اس طرح کی اصطلاحات کو اتنا گھِسا پیٹا گیا تھا کہ کسی کو بھی یقین ہو جائے کہ یہ پیشکش کسی شاہکار سے کم نہیں تھی۔ قدرتی طور پر میں پاپ کارن خریدنے اس یقین کے ساتھ پہنچی کہ یہ 1000 روپے کے خوفناک سنیما ٹکٹ کی قدر و قیمت کے ہوں گے۔
افسوس، یہ تجربہ سنیما کی مکمل تباہی ثابت ہوا جس دوران میرے اعصاب ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے رہے۔ اپنی محنت کی کمائی ضائع ہونے پر ملال کے ساتھ ساتھ اس تجربے نے میرے یقین کو پختہ کر دیا کہ یہ تخلیقی کاوش کسی ایسے ہدایت کار کی ہی ہو سکتی ہے جو علاج کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے اُس نے اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی انتقامی تلخ زباں حملوں کو فلم کی شکل میں ڈھالا۔ فلم کے پریمیئر میں پوچھے جانے پر اُس شریف آدمی نے اتنا ہی تسلیم کیا۔
جب سنیما ہال کی بتیاں روشن ہوئیں تو وہ چند لوگ جو اس ناقابلِ بیان تجربے میں محفوظ رہے تھے، زومبیوں کی طرح سیڑھیوں سے لنگڑا کر اُترتے ہوئے جنگ میں بچ جانے والوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھتے نظر آئے۔ میں پریشر ککر میں اُبلتے چاولوں کی مانند پیچ و تاب کھا رہی تھی اور سر میں ہتھوڑے برساتے درد کو چاکلیٹ آئسکریم سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد میں ان ناقدین کی عقل کو کوس رہی تھی جنہیں فلم پسند آئی تھی، یہاں تک کہ اِس کی حقیقت آشکار ہو گئی۔
ہماری تفریحی صنعت کے ناقدین ایک الگ ہی نسل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فلموں اور عظیم الشان پریمیئرز کے مُفت پاس، پارٹیوں میں مشہور فلمی شخصیات (سیلیبریٹیز) کے ساتھ کندھے سے کندھا ٹکراتے نظر آنا، سیلفیاں لینا اور دکھاوے کی دوستیاں ہی اِن کے لیے سب کچھ ہیں۔ یہاں تک کہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب معروف فلمی ستاروں نے بلاگرز سے درخواست کرنے کی جرات کی کہ وہ اُن کی فلموں پر تنقیدی تجزیے نہ لکھیں کیونکہ اُنہیں خوف ہے کہ اِس سے ناظرین اُن کے شاندار کام کو دیکھنے کے لیے سنیما کا رُخ نہیں کریں گے۔ حال ہی میں ایک نامور اداکارہ نے ایک صحافی کو اس وجہ سے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کہ اُس نے کسی فلم میں اُن کی اداکاری کی تعریف نہیں کی تھی۔ وہ برہم ہوگئیں اور ایک پریس کانفرنس میں اپنا غصہ نکالتے ہوئے سوال کیا کہ جب ساری دنیا نے اُنہیں تعریفوں کے ہار پہنائے تھے تو یہ بھی قطار میں کیوں نہیں تھا؟
ہمارے ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی یہی طوفانِ بدتمیزی دکھایا جاتا ہے جن میں باقاعدگی سے ایسے زہریلے ہیرو کا کردار پیش کیا جاتا ہے جسے زبردستی کھینچ تان کر بنائی گئی طویل اقساط کے بعد اپنے اطوار میں غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ سب روتی ہوئی ہیروئین کی دلرُبا اداؤں اور اسکرین پر دکھائے جانے والے اِس قسم کے تعلقات کا نتیجہ ہوتا ہے جو سماج کے دقیانوسی تصورات کو معمول پر لانے میں بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ ایک ٹوئٹر اسپیس (لائیو سیشن) کے دوران جس کی میزبانی میں نے نور مقدم کے ہولناک قتل کیس پر گفتگو کے لیے کی تھی، جب کچھ خواتین شرکاء نے ٹی وی ڈراموں میں اس تشویشناک رجحان کی نشاندہی کی تو تفریحی خبروں کے ایک صحافی نے مجھے برا بھلا کہا: ہمیں “تخلیقی صنعت” پر تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس سے فنکاروں کو مایوسی اور پریشانی ہو گی۔ کیا میں نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان میں فن کو فروغ ملے، جسے عدم برداشت اور مذہبیت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ جب تعمیری تنقید کو حب الوطنی سے جوڑا جائے تو اِس کے نتیجے میں بارودی سرنگوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔
اپنے ملک سے محبت کا مطلب آرٹ کے نام پر اوسط درجے کے کام کو پسند کیا جانا نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے ایک بار بہترین ٹیلی ویژن ڈرامہ نگار حسینہ معین سے پوچھا کہ اُن کے ڈراموں اور آج کے ڈراموں کی خواتین میں کیا فرق ہے، اُنہوں نے کہا کہ اُن کے خواتین کردار مسائل کے حل تلاش کیا کرتے تھے اور آج کے ڈراموں میں خواتین بلامقصد گھومتی نظر آتی ہیں۔
لیکن اِس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آرٹ کے نام پر اوسط درجے کے کام کو بار بار نوازا جائے گا تو تبدیلی کیوں کر آئے گی؟ اِس سے ہماری حقیقت کا سامنا کرنے میں نااہلی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ہم حقیقت سے نظریں چُرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
آئیے اپنے پڑوسی ملک ایران پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو گزشتہ چند دہائیوں میں بڑے تلخ حالات اور انتشار سے گزرا ہے جنہوں نے اُس کے سماجی تانے بانے پر ہنگامہ خیز اثرات مرتب کیے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سنسر شپ اور مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ایران کا سنیما بین الاقوامی سطح پر بڑی قابلِ غور ترقی کر رہا ہے کیونکہ وہاں کافی باصلاحیت افراد، لگن اور ایمانداری پائی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے جی حضوری کا مرض پاکستانی قوم میں مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے۔ صرف تفریحی صنعت ہی نہیں جو اس بدحالی کا شکار ہے۔ اشاعتی صنعت (پبلشنگ انڈسٹری) کا بھی یہی حال ہے جہاں معروف مُصنّفین دیگر لکھنے والوں اور سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے باقاعدگی سے خوشامدی قصیدہ نگاری کرتے ہیں اور دعوے دار ہیں کہ یہ ادبی جواہر عالمی سطح پر انعام و اکرام کے لائق ہیں، اِس سے کم نہیں۔ اگر آپ اتنے بدقسمت ہیں کہ آپ مُفت تشہیر کے لیے اتنا گر جائیں اور کتاب خرید لیں تو آپ نامعقولیات میں سے منطق تلاش کرنے کی کوشش میں چکرا کر رہ جائیں گے۔ اوسط درجے کے کام کی حوصلہ افزائی سے یہ مُصنّفین وہی گھسی پٹی تحریریں مزید لکھتے ہیں تاکہ ناقدین کی جانب سے پہلے سے بھی پُرجوش تھپکیاں ملیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سیاست کے میدان میں کسی جماعت کے پیروکاروں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ تعصبی سیاسی رہنماؤں کو مثالی نہیں مانیں گے، لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ حقوق نسواں کے خود ساختہ علمبردار خواتین اور مرد بھی ایسے رہنماؤں کی حمایت کرتے ہیں۔ طاقت سے سچ بولنے کی یہ نااہلی زندگی کے تقریباً ہر شعبے سے جھلکتی ہے۔ حکمران اپنے چرب زباں، فضول گو معاونین اور مُشیروں پر بھروسہ کرنے کے باعث ہی زوال کا شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ ایسے رہنماؤں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنہیں اُن کی حد سے زیادہ خود اعتمادی نے ڈبو دیا۔ جیسا کہ امریکی مُصنّف اور لیکچرار ڈیل کارنیگی اِس بارے میں کہتا ہے: “خوشامد کا مطلب دوسرے شخص کو واضح طور پر یہ بتانا ہے کہ وہ اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے۔”
ٹاک شو کے اینکر اور اُن کے مہمان مُسلسل گفتگو کے نایاب فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ ایوارڈ شو کے میزبان گدھوں کی طرح چلاّتے اور بیہودہ لطیفے سنا کر سامعین کو ہنسا ہنسا کر دوہرا کر دیتے ہیں۔ جتنی گھٹیا زبان، اُتنی ہی پذیرائی۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے سال اُسی شو کی میزبانی کے لیے اُنہیں ہی دوبارہ مدعو کیا جاتا ہے۔
جہاں تک اُس فلم کا تعلق ہے جس نے مجھے ناقدین کو مشکُوک نظروں سے دیکھنے پر مجبور کیا، وہ دراصل ہالی ووڈ کے مشہور ہدایتکار کوئنٹن ٹیرنٹینو (Quentin Tarantino) کو بطور خراجِ تحسین بنائی گئی تھی۔ یہ سمجھنا مُشکل ہے کہ یہ خراجِ تحسین ہے یا توہین۔ پریس کانفرنس میں ہدایت کار نے دعویٰ کیا کہ ہالی وڈ کے کئی ہدایت کاروں نے جنہیں یہ فلم دکھائی گئی تھی، اُنہوں نے اِس میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم حسبِ توقع کسی ایک ناقد نے بھی اُن ہالی ووڈ ہدایت کاروں کے نام نہیں پوچھے۔
مُصنّفہ بول نیوز کی اوپیڈ ایڈیٹر ہیں