اعجاز حیدر

28th Aug, 2022. 09:00 am

خان خطرناک کیوں ہے؟

’’افلاطون کی جمہوریہ‘‘ کی ساتویں کتاب میں، سُقراط نے گلوکون (Glaucon) سے اپنے مکالمے میں غار کی تمثیل (Allegory of the Cave) کا ذکر کیا ہے۔

تمثیل میں ایک زیرِ زمین غار میں موجود قیدیوں کے ایک گروہ کا تصور پیش کیا گیا ہے جو ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے سامنے دیوار کو گھُور رہے ہیں۔ اُن کے پیچھے ایک اونچے چبوترے پر آگ لگی ہوئی ہے۔ قیدیوں اور آگ کے درمیان ایک اور دیوار ہے جس کے ساتھ مُحافظ مختلف ہتھیاروں کے ساتھ کٹھ پُتلیوں کی طرح گشت کر رہے ہیں۔ آگ کی روشنی قیدیوں کے سامنے موجود دیوار پر اِن ہتھیاروں کے سائے کو منعکس کرتی ہے جو پیچھے یا اطراف نہیں مُڑ سکتے۔

یہ تمثیل زندگی اور سچائی کے بہت سے پہلوؤں کی علامت ہے جو حقیقت کے بارے میں ہمارے نظریے یا اِس کی تشریح سے مُتصادم ہے لیکن یہ ایک آسان صُورتحال بھی پیش کرتی ہے۔ قیدی جو سائے کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے تھے، اِن ہتھیاروں کو اصل سمجھتے ہیں۔ روشنی کی طرح کوئی بھی شے جو اُنہیں اس آسان صُورتحال سے باہر لے جائے، ایک قیدی کو اندھا کر دے گی جو واپس پلٹ سکتا ہے۔

چونکہ یہ ملک سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنے حامی طبقے کو شعلہ بیانی اور دھمکیوں سے آراستہ کیے جانے کے باعث متعصبانہ اندھیروں میں مزید ڈوب رہا ہے جس کا واضح طور پر مقصد اداروں کو کمزور کرنا ہے، یہ سمجھنا سبق آموز ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔

خان کے بیان سے شروع کرتے ہیں، ایک ایسی داستان جسے اُن کے نوجوان اور ادھیڑ عمر پیروکاروں نے اندھا دھند گھول کر پی لیا ہے۔

Advertisement

اس ملک پر کئی دہائیوں سے بدعنوان خاندانوں کی حکومت رہی ہے۔ انہوں نے اپنی دولت بیرون ملک چُھپا رکھی ہے جس سے یہ ملک غریب ہو گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی ڈکیتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کے جائز رہنما خان کو ہٹانے کی سازش کی ہے۔ خان واحد رہنما ہیں جن میں اُصولوں کے لیے ڈٹ جانے کی ہمت ہے، آسمان سے اُترتی برف کی طرح پاک اور ایک ایسے مُحب وطن ہیں جو بیرونی چیلنجوں کے خلاف سیسہ پِلائی دیوار ہے۔ یہ سازش ایک غیرملکی طاقت نے رَچی اور خان کو ہٹانے کے لیے مقامی بکاؤ افراد نے اُس طاقت کے ساتھ ملی بھگت کی۔ لہٰذا، پیش ہے سوشل میڈیا ہیش ٹیگ ۔۔۔  #importedgovernment کوئی بھی جسے واٹس ایپ استعمال کرنے کی خوش قسمتی یا بدقسمتی حاصل ہے، وہ جانتا ہے کہ اُس کے اِن باکس میں روزانہ تواتر کے ساتھ ڈھیروں پیغامات پہنچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل کُوریلا نے 18 اگست کو ایک وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا اور چیف آف آرمی اسٹاف اور ان کے وفد سے ملاقات کی۔ ایک واٹس ایپ پیغام میں پوچھا گیا کہ ’’پاکستان کو اب کون سے نئے احکامات موصول ہوئے ہیں؟‘‘ یہی پیغام پھر تاریخ میں لوٹ جاتا ہے، ایوب خان سے شروع کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب ملک پر فوجی جرنیلوں کی حکومت تھی تو پاکستان نے کیسے امریکی من مانیاں تسلیم کیں۔

اس سے پہلے کے ایک اور واٹس ایپ پیغام نے جنرل قمر باجوہ کی امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کو فون کال اور ایمن الظواہری کو نشانہ بنائے جانے کے درمیان گٹھ جوڑ بنایا، جس میں پوچھا گیا کہ خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے کیا خفیہ معاہدے ہوئے ہیں؟ اِسی طرح کے دیگر واٹس ایپ پیغامات خان کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں جو امریکا کے سامنے نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا۔ یہ پیغامات نہایت چالاکی سے پی ٹی آئی کے بیانیے کی حمایت میں تیار کیے گئے ہیں جن میں اکثر ملکی تاریخ کے حقائق کا استعمال کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، فوج کی سیاست میں کھُلی اور ڈھکی چھُپی مُداخلت ایک حقیقت ہے، عدلیہ کی کوتاہیاں اور کارنامے ایک حقیقت ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائیوں کی ناقص طرزِ حکمرانی اور سیاسی کشمکش حقائق ہیں۔ تاہم یہ بیانیہ اِن مُنتخب شدہ حقائق کو استعمال کرکے خان کو بطور واحد متبادل پیش کرنے کے مقصد سے ایک خُوشنما تانا بانا بُنتا ہے۔ کہانی خان کو ایک ایسے شخص کے طور پر بھی پیش کرتی ہے جس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور 26 برسوں تک کرپٹ شریفوں اور زرداری کے خلاف جدوجہد کی۔

یقیناً اِس کہانی میں زیادہ تر لغویات ہی ہیں لیکن خان کے حامیوں کو اُن کے اپنے حقائق کے علاوہ کوئی اور حقائق پسند نہیں۔ صرف گزشتہ چار سالوں کے واقعات کو ہی دیکھیں، خان کیسے 2018ء میں ایک ایسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے جس نے “سلیکٹڈ” اور “ہائبرڈ” جیسی اصطلاحات کو شہرت دی؟ انہوں نے مارچ 2018ء میں پی ایم ایل این کے امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ کو شکست دینے کے لیے پی پی پی سے رابطہ کیسے کیا؟ اس سے پیشتر بلوچستان اسمبلی میں کیے گئے گٹھ جوڑ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اُن کی اپنی پارٹی میں کئی سیاسی خاندان کیوں موجود ہیں؟ ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو “بدعنوان” کے طور پر جانے جاتے ہیں؟ اُنہیں اُن چودھریوں سے تعلق جوڑنے کی ضرورت کیوں پڑی جن کا تعلق بھی ایک سیاسی خاندان سے ہے اور وہ زیادہ تر اُصولوں سے عاری سمجھے جاتے ہیں؟ کوئی بھی شخص خان کے پرانے بیانات، بطور وزیراعظم بیانات اور حکومت ختم ہونے کے بعد کے بیانات سے متضاد شواہد پیش کرتے ہوئے کئی مثالیں دے سکتا ہے۔

ان حقائق میں سے کوئی بھی خان کے حامیوں کے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی اِصرار کرے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ خود پاک ہیں، لیکن اُس شخص میں جو خود کرپٹ ہو اور اُس میں جو اپنی مرضی سے بدعنوان کہلائے جانے والے لوگوں سے گٹھ جوڑ کرتا ہو، کیا فرق ہے؟ منطقی طور پر یا تو خان صاحب اپنے ساتھیوں کی کرپشن میں فریق ہیں یا وہ بےخبر ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اپنی بےاعتقادی کا انکار کرے اور یہ فرض کرے کہ خان کبھی بھی بدعنوانی کو منظور نہیں کرے گا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ یا تو منافق ہے یا اپنے ماتحتوں کی نگرانی کرنے میں خوفناک حد تک نااہل ہے۔ پھر بھی اُن کے حامی اُس غیرمتعصب کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں جو سُقراط کے تصورکردہ غار میں موجود مطمئن قیدیوں کی آسان صُورتحال کی طرح لگتا ہے، یا سخت پیرائے میں کہا جائے تو، جان بوجھ کر اُن حقائق سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہیں جو پی ٹی آئی کے بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتے۔

میں پہلے ہی خان کی جانب سے فوجی نظم و ضبط کو مُسلسل مجروح کرنے کے بارے میں لکھ چکا ہوں اس لیے میں اس نکتے پر بحث نہیں کروں گا۔ لیکن اُنہوں نے آئی جی اسلام آباد کو دھمکیاں دیتے ہوئے پولیس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا ہے۔ اُنہوں نے ایک جج کو بھی دھمکی دی جس کے باعث وہ اب قانون کی پکڑ میں ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات جیتنے کے باوجود، خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بھرپور بیان بازی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے اور اُن کے حامیوں نے ججوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے، اُن کے حامی سوشل میڈیا پر ججوں کے نام لے کر حملہ آور ہیں۔

Advertisement

اس مرحلے پر خان کا غیرمعمولی مقصد اس ملک کے لیے خطرہ ہے۔ تمام سیاستدانوں کی طرح خان بھی اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم دیگر سیاست دانوں کے برعکس، خان نے اخلاقیات کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور ایک ایسا عالمی نظریہ اپنایا ہے جس میں کوئی شک نہیں، کوئی غیریقینی بات نہیں۔ وہ ایک ایسے آدمی ہیں جو اپنے علاوہ ہر کسی پر اپنا حق سمجھ کر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور فخریہ طور پر مُستقل مزاجی سے ایسا کرنے میں کامیاب ہیں۔

وہ اِس طرح کے ہمزاد (کلون) ممکنہ اور خوفناک طور پر لاکھوں کی تعداد میں تیار کر چکے ہیں۔ عام حالات میں، لوگ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں لا سکتے ہیں اور نہ دے کر مُسترد بھی کر سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے ارکان کے علاوہ دیگر عوام کارکردگی یا مفادات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ وہ دشمنوں کے قید خانے کو تباہ کرنے والے شدت پسند انقلابی نہیں اور نہ ہی ناقابلِ برباد قدامت پسند حامی ہیں کیونکہ انہوں نے ہائی اسکول میں سیکھا تھا کہ رکاوٹیں عام طور پر مطلوبہ نتائج نہیں دیتیں۔

اسی طرح، ان میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ جمہوریت ایک تصور کے طور پر 18 ویں، 19 ویں اور 20 ویں صدیوں میں بہت زیادہ زیر بحث رہی تھی۔ جیمز میڈیسن، وفاق پرست مصنفین میں سے ایک اور امریکا کے چوتھے صدر، لوگوں کی حکمرانی سے شاکی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں وفاق پرست مصنفین کے درمیان ایتھنیائی معنوں میں جمہوریت اور کسی جمہوریہ میں نمائندہ جمہوریت کے درمیان فرق کے بارے میں یہ بحث نظر آتی ہے۔

یہ وجہ بھی ہے کہ جمہوریت کا نظریہ صرف مظاہروں اور عوام کی حکمرانی کا سیاسی نظام بننے کے لیے پروان نہیں چڑھا بلکہ اس سے بھی اہم کہ یہ حقوق کا نظام ہے۔ بہ الفاظِ دیگر یہ صرف اکثریت سے متعلق نہیں، ایک ایسی اکثریت جسے، نہ صرف آئینی ضمانتوں میں محفوظ بلکہ اُن اقدار کی معیاری قبولیت کے ذریعے بھی حقوق کے احساس کے باعث کوئی روک ٹوک نہیں، جمہوریت نہیں بلکہ اکثریتی آمریت ہے۔

نظریہ بالکل سادہ ہے، اکثریت شہریوں کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کر سکتی۔ لہذا حقوق کے قوانین کی طرح تحفظات، آئینی ضمانتیں، بعض صورتوں میں، امریکا کی طرح، اختیارات کی علیحدگی، مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی اور بہت کچھ۔

افلاطون کا استدلال ہے کہ سیاسی حکومتیں ایک ارتقائی راستے کی پیروی کرتی ہیں، اولیگارکی، قدیم روسی اشرافیہ کے نظام (Oligarchy) سے جمہوریت اور پھر جابر حکومت تک۔ جب اشرافیہ ناکام ہو جاتی ہے تو وہ جمہوریتوں کو (ایتھینیائی معنوں میں) جگہ دے دیتے ہیں۔ لیکن پھر جمہوریتیں، ہجومیت کے معنی میں سیاسی دانشمندی پر غالب آ کر جابروں کو راستہ دیتی ہیں۔ تاہم جابر عوامی رہنما کے طور پر اقتدار میں آتا ہے، جیسا کہ مصنف شون الینگ نے لکھا، “وہ اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، ایک ایسا آدمی جو ہر چیز کو دوبارہ درست کر سکتا ہے۔”

Advertisement

کیا یہ کچھ سُنا سُنایا لگتا ہے؟

مصنف خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں

Advertisement

Next OPED