اعجاز حیدر

23rd Oct, 2022. 09:00 am

روس یوکرین جنگ، نئے مرحلے کے لیے تیّار

مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں

یوکرین جنگ ایک اور مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔ لیکن آئیے پہلے زمینی صورتحال کا جائزہ لیں۔

10 اکتوبر کو حملے کی قیادت کے لیے روسی فضائیہ کے ایک جنرل سرگئی سرووِکن نے اعتراف کیا ہے کہ خرسون کے علاقے (جنوبی جنگی محاذ) میں حالات “بہت مشکل” ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے اِن اطلاعات کے تناظر میں بات کی کہ یوکرین کی افواج خرسون کا قبضہ واپس لینے کے لیے جارحانہ پیش قدمی کر رہی ہیں جو حملے کے پہلے پانچ دنوں میں روسی افواج کے قبضے میں جانے والا پہلا شہر ہے۔

جنرل سرووِکین نے سرکاری ٹیلی ویژن روزیہ 24 کو بتایا کہ فوج “(خرسون کی) آبادی کے محفوظ انخلاء کو یقینی بنائے گی”۔ اِسی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ “دشمن مسلسل روسی فوجیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”

جنرل سرووکین کے حوالے سے الجزیرہ نے اطلاع دی ہے کہ خطے میں گزشتہ چند ہفتوں میں روسی افواج کو 20 سے 30 کلومیٹر پسپا کیا جا چکا ہے اور اُنہیں دریائے ڈنیپر (ڈنیپرو، جیسا کہ اِسے یوکرین میں کہا جاتا ہے) جو یوکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، کے مغربی کنارے گھیرے میں لیے جانے کا خطرہ ہے۔ جنرل سرووِکین نے یہ بھی کہا کہ مشرقی یوکرین کے قصبوں کوپیانسک (Kupiansk)، لائمن (Lyman)، اور میکولائیو (Mykolaiv) اور کِریوی رِیہہ (Kryvyi Rih) کے درمیان شمالی خرسون کے علاقے میں موجود روسی ٹھکانے مسلسل حملوں کی زد میں ہیں۔

Advertisement

تبدیلیوں کی خبریں کریملن (اور خود پیوٹن) کی طرف سے بارہا یقین دہانیوں کے تناظر میں سامنے آئی ہیں کہ “خصوصی فوجی آپریشن” (جارحانہ کارروائی کے لیے پیوٹن کی اِصطلاح) منصوبے کے مطابق چل رہا تھا اور روس اپنے اُن اہداف کو حاصل کر رہا تھا جو اُس نے اپنی افواج کے لیے طے کیے تھے۔ مُتحرّک ہونے کا فیصلہ جو افراتفری میں ایک مشق بن گیا اور جس نے فوج کے لیے مناسب لاکھوں مردوں کو روس سے بھاگنے پر مجبور کیا، اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ میدانِ جنگ میں معاملات ٹھیک نہیں چل رہے تھے۔ شمال مشرق سے پسپائی، مشرقی محاذ کے کچھ حصوں، خصوصاً یوکرین کی جانب سے تزویراتی قصبے لائمن پر دوبارہ قبضے، اور جنوب میں یوکرین کی پیش قدمی کے بعد پیوٹن کے قریبی ساتھیوں اور کریملن کے قریب سمجھے جانے والے عسکری اُمور کے بلاگرز کی جانب سے بھی تنقید کی گئی۔

یوکرین نے پہلے خرسون میں اپنی تیاریوں کو بطور پانسہ استعمال کیا تاکہ روس کو اپنے کچھ سخت تربیّت یافتہ فوجیوں کو خرسون اوبلاست میں دوبارہ تعینات کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ فوجیوں کو ڈونباس سے نکالا گیا جس سے شمال مشرق اور مشرقی محاذ پر روسی دفاع کمزور ہوا۔ یوکرین نے اِس کا فائدہ اٹھایا جب اُس نے 6 ستمبر کو شمال مشرق میں جارحیت شروع کرتے ہوئے اِس محاذ کے ایک بڑے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور مشرق میں بھی پیش قدمی کی۔

لیکن یوکرین نے خرسون سے بھی اپنی توجہ کبھی نہیں ہٹائی جہاں اِس نے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے۔ اوبلاست میں ایک اندازے کے مطابق 30 ہزار روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے اِس نے ابتداً مختلف ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا۔ اِس کی بجائے یوکرینی افواج نے روسی کمک کے راستوں (Supply Lines)، گولہ بارود کے ڈپو اور پیٹرولیم، تیل وغیرہ کے ذخیروں  (POL Dumps)کو نشانہ بنانے کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے توپ خانے، میزائل اور ڈرون حملوں کا استعمال کیا۔ یوکرینیوں نے خرسون میں دو اہم پُلوں اینٹونوووسکی  Antonivsky(یہ پل دریائے نِیپرو  Dniproپر اور ایک اہم سنگم، میکولائیو (Mykolaiv) شہر کی جانب تزویراتی رسائی فراہم کرتا ہے) اور روسی کمک کو زیادہ خطرے میں ڈالنے کے لیے مزید اوپر کی جانب نووا کاخووکا  (Nova Kakhovka)کے قریب نشانہ بنایا۔ اِسی دوران یوکرینی روسی فوجیوں کو اپنے ترجیحی محاذوں پر قریبی لڑائی میں مصروف رکھے ہوئے تھے۔

زیادہ تر عسکری اور میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اِن حربوں نے روسیوں کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے اور روسیوں کی جنگی حکمت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے اُن کے لیے آزادانہ طور پر لڑنا مشکل بنا دیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ کی اِن مصروفیات کے بعد یوکرینی افواج نے دریائے نیپرو کے مغرب میں روسی دفاع کو توڑنے کے لیے ٹینکوں سے حملے کیے۔

اُدھر روس میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی پر عمل شروع کر دیا ہے۔ اُنہوں نے ریفرنڈم کرایا اور یوکرین کے چاروں مقبوضہ علاقوں کو روس کا حصہ قرار دے دیا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران اُنہوں نے یوکرین کے اہم انفراسٹرکچر پر میزائل حملوں اور ایرانی ڈرونز شاہد 136 (جسے اپ گریڈ کر کے نام بدل کر جیران 2 کر دیا گیا ہے) کے استعمال سے جنگ کو یوکرین کے مزید مغرب اور اندر تک پہنچا دیا ہے۔ ڈرون جو گولہ بارود کے مقابلے میں براہ راست حملہ کرنے والا ہتھیار ہے، کافی کارگر ثابت ہوا ہے۔ فضا سے زمین پر کیے جانے والے یہ حملے، جو ممکنہ طور پر بڑھیں گے، بجلی کی بندش کا سبب بنے ہیں اور پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔ یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے مطابق ملک کے تقریباً 30 فیصد بجلی گھر (پاور پلانٹس) تباہ ہو چکے ہیں۔

بدھ 19 اکتوبر کو، اِس مضمون کے لکھے جانے سے ایک دن قبل، پیوٹن نے یوکرین کے چار مقبوضہ علاقوں میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ “اپنی سلامتی کونسل کے ارکان کو ٹیلی ویژن پر دیے گئے بیان میں پیوٹن نے روس کے تمام علاقائی گورنرز کے سلامتی اختیارات میں اضافہ کر دیا اور غیرمُستقل جنگی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے وزیراعظم میخائل میشوسٹن کی سربراہی میں ایک خصوصی رابطہ کار کونسل بنانے کا حکم دیا۔”

Advertisement

یہ واضح ہے کہ ناکامیوں کے باوجود پیوٹن کا عزم مضبوط ہو رہا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں۔ یوکرین کے خلاف روایتی جنگ میں شکست پیوٹن کی اپنی پوزیشن کے ساتھ ساتھ روس بطور عالمی طاقت، اُن کے لیے ایک آپشن نہیں ہے۔ روس کے فوجی وقار کو پہلے ہی بڑا نقصان پہنچا ہے۔ یہی ایک تضاد پیدا کرتا ہے۔ یوکرین جو اب جارحانہ ہے، پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اِس کے خلاف جارحیت کی گئی جس کا یوکرینی افواج نے مقابلہ کیا، روسیوں کو روکا اور اب وہ جارحانہ ہیں۔ جیسا کہ یوکرین کے صدارتی مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے ٹوئٹر پر کہا، “اِس (پیوٹن کے نئے اعلانات) سے یوکرین کے لیے کچھ نہیں بدلا ہے، ہم اپنے علاقوں کی آزادی اور قبضے کا خاتمہ جاری رکھیں گے۔” یوکرین مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہے۔

اپنی جانب سے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، پیوٹن مذاکرات کے متحمل نہیں ہو سکتے، حالآنکہ اس جنگ کو شروع کرنے کے بعد وہ ہی اِسے روک سکتے ہیں۔ لیکن وہ کمزور صورتحال میں ایسا کیسے کریں، خصوصاً جب یوکرین بارہا کہہ چکا ہے کہ کیف کا واحد مقصد اپنے علاقوں بشمول کریمیا کو آزاد کرانا ہے، جس پر روس نے 2014ء میں قبضہ کیا تھا۔ دوسرے طریقے سے، فریقین ایک درمیانی راہ اور طریقِ کار کہاں اور کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟

اس نکتے پر ہم ایک اور مسئلے کو بھی دیکھتے ہیں۔ یوکرین اپنے اس مطالبے سے پیچھے ہٹتا نظر نہیں آتا کہ روس اِس کے تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائے۔ درحقیقت، کیف کے لیے یہ کم از کم تلافی ہے۔ پیوٹن کے لیے نظریاتی لحاظ سے قطعی حد، کیف کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے علاقوں پر روسی قبضے کو قبول کر لے۔ نتیجہ ۔۔ دونوں باتوں کے ہونے کا کوئی امکان نہیں، کم از کم اِس مرحلے پر تو نہیں۔

ایک اور پیچیدگی یہ ہے کہ یوکرین جارحانہ انداز میں ہے اور رفتار اور دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اپنے ابتدائی منصوبے کی ناکامی پر پیوٹن ایک ایسے منصوبے کی تلاش میں ہیں جو کامیاب ہو سکے۔ زیادہ تر تجزیہ کار، بشمول روسی، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پیوٹن صورتحال کا حل نکالنے اور اِسے بڑھتی مشکلات کے خلاف  استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیف کا کم از کم مطالبہ (روس کو یوکرین سے باہر نکالنا) کریملن کے کم از کم مطالبے (یوکرینی علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے) کے خلاف ہے، اِس مرحلے پر کسی بھی مذاکراتی تصفیے کی انتہائی کم گنجائش کے ساتھ موجودہ صورتحال عسکری حملے کی مکمل تیاری ہے یا جسے آنجہانی پروفیسر فلپ ونڈسر نے “فتح کا بلند ترین نکتہ” کہا تھا۔

لیکن جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، یہ نکتہ انتہائی اہم ہے۔ جنگِ کوریا کو لے لیں۔ انچن لینڈنگ کے ایک ماہ کے اندر ہی امریکا اور اتحادیوں نے سیئول کو آزاد کرالیا تھا اور شمالی کوریا کی افواج کو ایک سرحدی مقام (38th Parallel) کے شمال میں دھکیل دیا تھا۔ امریکی ساکھ قائم ہونے کے ساتھ ہی اِسے دشمنی ختم کر دینی چاہیے تھی۔ اِس کی بجائے امریکا نے شمالی کوریا پر حملہ کرنے اور اتحادِ کوریا کے حصول کے لیے سرحدی مقام (38th Parallel) سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جیسا کہ ونڈسر نے لکھا، “یہ فتح کے آخری نکتے سے آگے جانے کا ایک تاریخی واقعہ ثابت ہوا۔”

Advertisement

متوقع طور پر اس سے چین جنگ میں شامل ہوا۔ پیکنگ (بیجنگ) نے “مختلف ذرائع سے ایک انتباہ دیا تھا کہ وہ شمالی کوریا پر امریکی حملے کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصوّر کرے گا”۔ نتیجہ ۔۔ تھوڑے ہی عرصے میں “امریکی اور اقوام متحدہ کی دیگر افواج شمالی کوریا سے بے شرمی سے نکل گئیں”۔ ویت نام سے قبل یہ امریکا کی پہلی شکست تھی جو جنگِ کوریا کے اس مرحلے میں جنرل ڈگلس میک آرتھر کے ذریعے ہوئی جنہوں نے امریکا سے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے پر اُنہیں برطرف کر دیا گیا۔

تب تک چینی افواج امریکی اور اقوام متحدہ کی افواج کو سرحدی مقام (38th Parallel) کے جنوب میں کامیابی سے دھکیل چکی تھیں۔ لیکن جنگ بندی پر مذاکرات ہونے کے باوجود، چینیوں نے اتحادی افواج کو سرحدی مقام (38th Parallel) کے جنوب کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا جس نے امریکی صدر آئزن ہاور کو یہ دھمکی دینے پر مجبور کر دیا کہ “اگر چینیوں نے جارحیت جاری رکھی تو امریکا جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر غور کرے گا”۔ اس کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی اور اُس علاقے کا وجود عمل میں آیا جسے آج شمالی اور جنوبی کوریا کو الگ کرنے والے غیرعسکری خطے (DMZ) کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آخرکار مُتحارب فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، تاہم سوال یہ ہے کہ یوکرین جنگ میں ایک یا دونوں فریق کب اِس مقام تک پہنچیں گے؟

Advertisement

Next OPED