حمزہ حسین

25th Dec, 2022. 09:00 am

بیجنگ کی معاشی سست روی کے افسانے کو ختم کرنا

 2022ء کے رجحانات واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ چین ایک اقتصادی قوت رہے گا اور عالمی سطح پر اہم کردار ادا کرے گا

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ چینی معیشت کے زوال سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ سخت کووڈ 19 لاک ڈاؤن اور یو ایس فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے منفی اثرات کی وجہ سے بیجنگ کو بھی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن چینی معیشت اب بھی ان کی توجہ کا مرکز ہے جو دنیا میں بہترین ہیں، اور اس توجہ کی وجوہات بھی منفی نہیں مثبت ہیں۔ چین کا اپنی کمزور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو برقرار رکھنا اور تجارتی اطمینان کا رجحان ایسے شعبے ہیں جن کے بارے میں جامع طور پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ 2022ء چین کے خلاف تمام تر انتقامی پروپیگنڈے کے باوجود کافی مثبت سال رہا ہے۔

کووڈ کی پابندیوں میں کمی اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے رسد کی سطح پر لگنے والوں کے دھچکوں کے منفی اثرات کی مزاحمت کے رجحان کے ساتھ، چینی اقتصادی منصوبہ بندی کبھی بھی عالمی مندی کے ہاتھوں یرغمال نہیں رہی۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور بزنس اسکول میں سنٹر فار گورننس اینڈ سسٹین ایبلٹی کے ڈائریکٹر لارنس روہ کے مطابق، عالمی میکرو اکنامک رکاوٹوں اور وبائی امراض کے اثرات نے 2022 ء میں چین کی معاشی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں ڈالا، جو قابل تعریف بات ہے۔ اسی طرح دیگر تجزیہ کاروں کا بھی دعویٰ ہے کہ چینی معیشت سال 2023 ء میں بھی ایک اہم قوت محرکہ بنی رہے گی۔

Advertisement

دسمبر 2022ء کے آخر میں ختم ہونے والی سالانہ مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس اس حقیقت کا ثبوت ہے، جس میں اصولوں پر اتفاق اور منصوبوں کو مضبوط کیا گیا۔ ان میں حکمت عملیاں جیسے کہ ملکی طلب کو بڑھانا، جدید صنعتی نظام کی تعمیر میں تیزی لانا، عوامی شعبے کا استحکام – جو کہ چین کی جی ڈی پی نمو اور اقتصادی صلاحیت کا ایک اہم حصہ ہے – اور نجی کاروباروں کو سپورٹ کرنا شامل ہیں۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن کے بیانات کی طرح، جرمنی، آسٹریلیا اور ان سے بھی آگے ممالک کی کمپنیاں اگر چین میں کام جاری رکھتی ہیں تو سرمایہ کاری کے منافع بخش امکانات ان کے سامنے ہوں گے۔ اس کی روشنی میں، زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے مالی اور اقتصادی خطرات کو روکنا وہ اہم اصول ہیں جو ‘ سینٹرل اکنامک ورک کانفرنس’ ) CEWC ( سے بنیادی اصولوں کے طور پر ابھرتے ہیں۔

چین کی اقتصادی پالیسی کا زیادہ تر حصہ ’ایکیوپنکچر‘ یا صحیح نقطہ تلاش کرنے کی صلاحیت اور اس مقصد کے حصول کے لیے ریاستی مشینری کی پوری قوت کو بروئے کار لانے پر منحصر ہے۔ امریکہ کے برعکس، جو اپنے معاشی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے نجی شعبے کی صحت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، پالیسی سازی کی ہم آہنگی، جو چینی معیشت کی ایک متعین خصوصیت ہے، بالکل وہی ہے جو اسے وقفے وقفے سے ہونے والی ہلکی پھلکی ہلچل اور شورش کے ذریعے طاقت دیتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ طبی نظام کیوں تیزی سے مضبوط ہو گئے ہیں اور کس طرح سخت لاک ڈاؤن اقدامات کے ذریعے کووڈ 19 کے مزید خطرناک ویریئنٹ کمزور ہو گئے ہیں۔

وہ لوگ جو چین کے اپنائے ہوئے مبینہ طور پر سخت اقدامات پر تنقید کرتے ہیں وہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ کووڈ کی صفر شرح اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی طویل مدتی صحت کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اس طرح کی ایڈجسٹمنٹ کا کاروباری اعتماد پر ناگزیر اثر پڑتا ہے جو اسٹیل مینوفیکچرنگ، آٹو موٹیو انڈسٹریز، ٹیلی کمیونیکیشن اور سیاحت جیسی اقتصادی سرگرمیوں میں روح پھونک دیتا ہے۔ ۔ کئی عالمی بینکوں نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ چینی معیشت 2023ء میں مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ مورگن اسٹینلے اور سوسائٹ جنرل – دو بڑی کثیرالقومی مالیاتی خدمات کی کمپنیاں – 2023ء میں 5فیصد کی شرح نمو کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔

اس طرح کی امید بہت سے اہم عوامل پر منحصر ہے جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر، کرسٹالینا جارجیوا کے مطابق، چین اپنی معیشت کو سنبھالنے اور دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے موزوں مالیاتی گنجائش سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوم، مختلف ممالک کی سب سے بڑی عالمی کارپوریشنوں نے چینی معیشت میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ فوائد اور منافع حاصل کرنے کے لیے اس ملک میں موجود رہنا چاہتی ہیں، اور منافع کا حصول انخلا کے بعد ممکن نہیں ہوگا۔ یو بی ایس کے حکمت عملی کے ماہر ، کرسٹوفر سوان اور ونسنٹ ہینی کے مطابق، بیجنگ سے ہونے والی متعدد اوپننگز کی وجہ سے نومبر 2022 ء کے آغاز سے چینی ایکویٹیز میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس کے بعد کثیر القومی سرمایہ کاری کے حوالے سے اعداد و شمار آتے ہیں جو مستقبل کے لیے اچھی امید ظاہر کرتے ہیں۔ 2022 ء کے پہلے 10 مہینوں میں، ایف ڈی آئی سال بہ سال 17اعشاریہ4 فیصد بڑھ کر 168اعشاریہ34 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں جرمنی کی بڑی کارساز کمپنی فاکس ویگن کی سرمایہ کاری شامل ہے، جس نے چین میں تحقیق اور ترقی پر مرکوز مشترکہ منصوبوں میں 3 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ چینی مارکیٹ میں اعتماد بلندیوں کو چھو رہا ہے جو سرمایہ کاری کے لیے بنیاد کا کام کرتا ہے جیسا کہ 2022 ء میں دیکھا گیا۔

مزید برآں، ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (RCEP) اور بیلٹ اینڈ روڈ اقدام میں سرمایہ کاری انحطاط، جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کے متزلزل ہونے کی توقع تھی، کے باوجود بلا روک ٹوک جاری ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور میں چین کی سرمایہ کاری بدستور برقرار ہے، اور آر سی ای پی کو مزید وسعت دینے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں ، جو کہ تاریخ میں حجم کے لحاظ سے سب سے بڑا تجارتی معاہدہ ہے۔ بیرونی دنیا اور بین الاقوامی برادری کے لیے معیشت کو کھول دینے کے معاملے پر اس سال کی سالانہ مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس ) CEWC (میں روشنی ڈالی گئی، جہاں چین مارکیٹ تک رسائی کو وسعت دے گا اور خدماتی شعبے کو مزید قابل رسائی بنائے گا۔ یہ واضح ہے کہ چین کی معیشت کے غیر متعلق ہونے کے افسانے کچھ بھی نہیں، بلکہ محض غلط فہمیاں ہیں، جو چین مخالف عناصر کی طرف سے پھیلائی گئی ہیں جو بیجنگ کو محکوم دیکھنا چاہتے ہیں۔ 2022ء کے رجحانات واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ چین ایک اقتصادی قوت رہے گا اور عالمی سطح پر اہم کردار ادا کرے گا۔

Advertisement

Advertisement

Next OPED