چین جاپان تعلّقات، 50 برس کا سنگِ میل
کیا جاپان تاریخ میں درست جانب ہوگا؟
29 ستمبر کا دن چین اور جاپان کے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی 50 ویں سالگرہ کے طور پر منایا گیا۔ ایشیا میں دو مربُوط طاقتوں کے طور پر بیجنگ اور ٹوکیو دونوں نے ایک طویل عرصے تک چار اہم سیاسی دستاویزات کو اپنے تعلّقات کی بنیاد بنایا، اور ایک اقتصادی شراکت داری کو فروغ دیا جس نے اِن کی ترقّی اور خطّے میں مُثبت کردار ادا کیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا (Fumio Kishida) کو مبارکباد دیتے ہوئے ایک پیغام میں کہا کہ “گزشتہ 50 برسوں کے دوران دونوں حکومتوں اور عوام کی مشترکا کاوشوں سے فریقین یکے بعد دیگرے چار سیاسی دستاویزات اور اہم مشترکا مفاہمت کے ایک تسلسل تک پہنچے ہیں، اور مختلف شعبوں میں تبادلے اور تعاون میں مُسلسل اضافے نے دونوں ممالک اور عوام کو اہم فوائد سے فیض یاب کیا ہے اور خطے اور اِس سے باہر امن و ترقی میں کردار ادا کیا ہے۔”
تعلّقات کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر مُستقبل میں اختلافات کو مناسب طریقے سے نمٹانے اور اس بات کو یقینی بنانے کی خاطر کہ فریقین کے درمیان معمول کے تعلقات 1972ء میں طے پانے والے تاریخی اتفاقِ رائے کے مطابق ترقی کریں، جاپان کے لیے کچھ اہم خود شناسی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس کا مطلب ایک دوسرے کی خود مختاری سے متعلق معاملات پر حقیقی باہمی تعاون اور سیاسی اعتماد کو مضبوط کرنے کے لیے دو طرفہ مواصلاتی خطوط کو ترجیح دینے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔ مؤخر الذکر ایک ایسے رشتے کو تقویت دینے کی کلید ہے جو روایتی دوستی سے مالا مال ہے اور “ایشیا میں تناؤ میں کمی اور دنیا میں امن” کے لیے اس کے تعاون کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جیسا کہ نصف صدی قبل اتفاق کیا گیا تھا۔
بالترتیب دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی معیشتوں کے طور پر چین اور جاپان کے باہمی مُفید اقتصادی مفادات ہیں جنہوں نے اُن کے تجارتی تعلقات کو مسلسل بلندیوں تک پہنچانے میں مدد کی ہے۔ یہ دوطرفہ تجارتی حجم سے ظاہر ہوتا ہے جس میں برسوں کے دوران مستقل مزاجی سے اضافہ ہوا ہے اور یہ گزشتہ سال 370 ارب ڈالر کے ایک شاندار سنگِ میل سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ یہ اِن اقتصادی تعلقات سے بھی جھلکتا ہے جو امریکا اور دیگر جاپانی شراکت داروں کی جانب سے بڑھتی بیرونی مداخلت سمیت کچھ اختلافات کے باوجود لچک دار رہے ہیں۔ بہرحال دوطرفہ تجارت کو پُختہ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والی محنت، مُنصفانہ اور آزادانہ تجارتی اطوار کے ساتھ ساتھ دونوں جانب سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پر زیادہ توجہ کی مُتقاضی ہے۔ ٹوکیو چین کے خُود کفیل عُروج اور ترقی کی راہ کو بحیثیت پُرامن اور مُفید، سچائی سے قبول کرتے ہوئے چین اور جاپان کی مُشترکا تقدیر، یعنی ایشیائی خطّے کی ترقّی اور احیاء میں نُمایاں تعاون کو فروغ دے سکتا ہے۔
ممالک کے مابین کچھ جائز اختلافات پیدا ہونا عین فطری ہے اور چین جاپان کے دہائیوں پرانے تعلّقات کو بھی اِس سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ بیجنگ نے باہمی اہمیت کے حامل مسائل کے حل میں کوئی تحفظات ظاہر نہیں کیے ہیں، اور ثمرآور اعلیٰ سطحی تبادلوں کی توثیق اِس عزم کا عملی اظہار ہے۔ کلیدی نکتہ یہ سمجھنا ہے کہ خود شناسی کی ضرورت کہیں سے بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ٹوکیو کے امریکا کی جانب شعوری جھُکاؤ نے چین کے تئیں ایک خودمختار، تعاون پر مبنی مُتوقع جاپانی خارجہ پالیسی کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں، جو عالمی سطح پر چین کے پُرامن عروج کی راہ میں حائل ہیں۔ مستقبل میں دھڑے بندی کی سیاست کی طرف اِس طرح کے جھُکاؤ سے چین جاپان تعلّقات کو غیرضروری پیچیدگیوں کا خطرہ لاحق ہے، جبکہ مقصد آزادانہ مواصلات کو برقرار رکھنا، سیاسی اعتماد کو پروان چڑھانا، اور چین کے ساتھ باہمی خیر سگالی میں شامل ہونا چاہیے جو تاثرات کو ازسرنو ترتیب دے سکیں۔
خوش قسمتی سے 1972ء کا مشترکا اعلامیہ ایک پائیدار اتفاق رائے کے لیے اہم تعاون فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان کے بارے میں اعلامیہ بالکل واضح ہے کہ یہ عوامی جمہوریہ چین کی سرزمین کا ایک ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے، اور یہ کہ حکومت جاپان اس مؤقف کو پوری طرح سمجھتی ہے اور اس کا احترام کرتی ہے۔ یہ وضاحت چین جاپان تعلّقات میں بنیادی اُصول کے معاملات پر کسی ابہام یا پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی، حتیٰ کہ مُستقبل میں بھی نہیں۔ بیجنگ کی سخت مخالفت کے باوجود جاپان مُستقل چین کے اہم اندرونی معاملات پر امریکا سے تعاون کا انتخاب کرتے ہوئے اِس حد کو عبور کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ٹوکیو کے لیے یہ روشنی کی کرن ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ وقت کی آزمائش پر کھرے اُترنے والے اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے میں دلچسپی کا اظہار کرے۔ دیگر تمام معاملات میں تاریخ سے سبق سیکھنا پُرامن بقائے باہمی اور خود مختاری سے مُتعلق اُمور پر ایک دوسرے کی بیان کردہ حدود کے احترام کے مقصد میں یکساں طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا نے چینی صدر شی جن پنگ کے نام ایک پیغام میں کہا، “خطے اور دنیا میں امن و خوشحالی کے حصول میں جاپان اور چین پر ایک مُشترکا عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔”
کئی دہائیوں کے دوران چین جاپان باہمی تعلّقات کی لچک کے حوالے سے، حتیٰ کہ اہم اعلیٰ سطحی تبادلوں میں بھی کچھ شکوک پائے گئے ہیں۔ دونوں جانب کے حکام نے اچھے اور مُستحکم تعلّقات کو اپنے عوام کے لیے بطور بنیاد تسلیم کیا ہے، ثقافتی اور ہمسائیگی تبادلوں کے فوائد سے دوطرفہ تصورات کو تقویت پاتے دیکھا ہے، اور ایشیا میں مضبوط کثیرجہتی دیرپا امن کے لیے اپنے متعلقہ دلائل پیش کیے ہیں۔ اِن حتمی اہداف میں سے کچھ کو اکٹھا کرنے کا مطلب باہمی اعتماد کو نقصان دہ مُسابقت، دھڑے بندی پر قابو پانے کی حکمتِ عملیوں، اور ایک ریاست کے عروج و ترقّی کی قیمت دوسری ریاست ادا کرتی ہے، کی سوچ سے محفوظ رکھنا ہے۔
1972ء کے اتفاقِ رائے کا متن یہ بات پوری طرح واضح کرتا ہے کہ فریقین کے مفادات باہم مل سکتے ہیں، حتیٰ کہ علاقائی سطح پر بھی اور ایشیا کے استحکام کے لیے چین جاپان تعلّقات کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ آخرکار یہ چین اور جاپان ہی ہیں جنہوں نے “بالادستی” کے حصول کے خلاف اتفاق کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ممالک “کسی دوسرے ملک یا ممالک کے گروپ کی جانب سے اس طرح کی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرتے ہیں۔”کواڈ (QUAD)جیسے غیرنتیجہ خیز چار فریقی سلامتی مذاکرات اور امریکا کی زیرقیادت انڈو پیسیفک نقطہء نظر علاقائی امن کے نام پر بالادستی قائم کرنے کی مثالیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ، کیا جاپان تاریخ میں درست جانب ہوگا؟
اس طرح چین جاپان تعلقات کو 50 سالہ سنگِ میل سے مزید آگے لے جانے کے لیے تاریخی بنیادی اُصولوں کی پاسداری کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ خُود مختاری، باہمی احترام، عدم جارحیت، عدم مُداخلت اور مساوات جیسے اُصولوں کو ایسے تعلّقات اُستوار کرنے کے مقصد میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے جو ترقیاتی مواقع سے مالامال ہوں، اور اِن ممالک کے تاریخی اتفاقِ رائے کو کامیاب بناتے ہوئے مُستقبل میں برداشت کو بڑھانے کے لیے مزید مواقع پیدا کریں۔
مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔