رؤف حسن

25th Dec, 2022. 09:00 am

لامتناہی درد

مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan

کھری بات

ہو سکتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کوئی اہم چیز حاصل نہ کی ہو، لیکن ایک خوبی ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس ایسے لوگوں کی ایک صف ہے جنہوں نے ایک وقت میں آدھا سچ بولنے کے فن میں مہارت حاصل کی کر رکھی ہے، دوسرے حصے میں صرف اس بات کو چھپانے کے لیے بولا جاتا ہے جو انھوں نے پہلے نصف میں کہی تھی۔

اپنے الوداعی عوامی خطاب میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے دعویٰ کیا کہ (سابق) مشرقی پاکستان کا بحران سیاسی ناکامی تھی۔ ظاہر ہے، انہوں نے ملک کے مشرقی ونگ، جو اب بنگلہ دیش ہے، کے نقصان کی کسی بھی ذمہ داری سے ، اس نازک وقت میں فوج کی کمان کی قیادت کو بری کرنے کے لیے ایسا کہا تھا۔ اس کی وجہ سے ہونے والے درد کے باوجود، میں نے اکثر اس موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ہے، اور اصل عوامل کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے جنہیں دباکر رکھا گیا ہے، اس طرح ایک عملی گفتگو کے آغاز کو روکا جا رہا ہے تاکہ یہ سمجھایا جا سکے کہ بحران کو پاکستان کی تخلیق کے بمشکل 24 سال بعد کس چیز نے جنم دیا۔

اس دور میں، میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہ زیادہ تر ان لوگوں نے کیا ہے جنہیں تنقید کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس اقدام نے ایک ایسے سانحے کی غلط تشخیص کو دوام بخشا جس نے ملک کے اکثریتی حصے کو دوسرے نصف سے ہمیشہ کے لیے دور کردیا۔ ہم نے اس نقصان پر اتنا سوگ نہیں منایا اور اس کے بجائے اقتدار کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے حوالے کر دی جو دوسروں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ٹوٹنے کے مذموم ڈرامے میں شیطانی کردار ادا کرنے کا قصوروار تھا۔

Advertisement

کچھ لوگ اسے ہائبرڈ ناکامی کہتے ہیں، دوسرے اسے سیاسی شکست کہتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اسے غیر ملکی مداخلت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں مذکورہ بالا تمام اشکال اس ڈرامے میں جزوی طور پر موجود ہوسکتی ہیں جو آخرکار 16 دسمبر کو 50 سال سے زائد عرصے پہلے ظہور پذیر ہونے لگا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس بڑے سانحے کی خصوصی وجوہات نہیں تھیں جس نے نوزائیدہ ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ، جو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کے نتیجے میں ہونے والے بنیادی عوامل کا پتہ لگانے کے لیے تشکیل دی گئی تھی، مٹی کے ڈھیر تلے دب گئی اور اسے کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

سیاسی اشرافیہ کے محلاتی ڈرائنگ رومز میں بے معنی بحثوں اور وار رومز میں پھیلے حکمت عملی کے چارٹ کو مکمل کرنے کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ ملک ہاتھ سے چلا گیا۔ اس کے باوجود، ہم انتہائی خوفناک سانحے کے ذمہ دار نافرمان مجرموں کو بچاتے رہے – نافرمان مجرم جن کے شاگردوں کو ملک پر مزید دردناک سزائیں مسلط کرنے کے لیے واپس لایا گیا۔

آئیے پہلے چند حقائق سے آغاز کرتے ہیں۔ سانحہ سے پہلے کے مہینوں اور سالوں کے دوران غیر منقسم پاکستان کا صدر کون تھا، اس طرح وہ سیاسی فیصلے لینے کا مکمل انچارج تھا جسے وہ ریاست کے مفاد میں بہتر سمجھے؟ اسی دور میں فوج کا کمانڈر انچیف اور ملک کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کون تھا، اس طرح وہ فوجی فیصلے لینے کا مکمل اختیار رکھتا تھا جو اس کے خیال میں پاکستان کی حفاظت میں معاون ثابت ہوتے۔ جس شخص نے یہ تمام تاج پہن رکھے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان تھے۔ کیا ان کی صدارت یا ملک کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہونے کو کسی بھی حلقے کی جانب سے کوئی خطرہ تھا؟ جی نہیں۔ وہ فوجی کارروائی کے آغاز سے پہلے کے دنوں میں مکمل کمانڈ میں تھے۔ وہ ایسے احکام صادر کرتے تھے جن سے یہ سمجھ میں آتا تھا کہ یہ احکام سیاسی اور فوجی شعبوں میں ان  کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کا نتیجہ تھے۔

ایسے ہی ایک شخص ذوالفقار علی بھٹو تھے جو ان کے نائب صدر اور وزیر خارجہ تھے۔ اپنی موخرالذکر حیثیت میں، انہوں نے ہی سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ دیا تھا، اس طرح متحدہ پاکستان کو بچانے کی امید کی آخری علامت بھی ختم ہو گئی۔ یہ کوئی اچانک کیا گیا عمل نہیں تھا۔ یہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی میکیویلیائی حکمت عملی کا حصہ تھا، اور ملک کو جو حصہ باقی بچا تھا ،اس کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کی راہ ہموار کرنا تھا کیونکہ ان کے پاس غیر منقسم پاکستان کی سربراہی کے لیے مطلوبہ تعداد کبھی پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ انہوں نے پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ ان کے وزیراعظم بننے کے لیے ملک کا دولخت ہونا شرط ہے۔

یہ وہ کھیل ہے جو انہوں نے فوجی آپریشن کے آغاز سے بہت پہلے، درحقیقت، انتخابات کے نتائج کے اعلان کے فوراً بعد کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ وہی ہیں جس نے شیخ مجیب الرحمان کو غیر منقسم پاکستان کا وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے ملک میں دو وزرائے اعظم کا نعرہ لگایا۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں بھٹو وہی ہیں جنہوں نے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو منسوخ کرنے کی استدعا کی تھی جس کی وجہ سے سابق مشرقی پاکستان میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس مہینے کے آخر میں فوجی آپریشن کے آغاز پر، وہی تھے جنہوں نے کہا تھا: ’’پاکستان بچا لیا گیا ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو ایک دیرینہ مگر سازشی مجرم تھے ۔

پاکستان کے دولخت ہونے کے ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ جنرل یحییٰ خان تھے جنہوں نے تاریخ کے اس لمحے میں فوجی اور سیاسی کمان، بغیر کسی چیلنج کے،  اپنےآدمی کے سپرد کر رکھی تھی۔ اگر ان کا خیال تھا کہ بحران کا سیاسی حل ہونا چاہیے تو انہوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس کیوں نہیں منعقد کیا جیسا کہ انتخابات کے بعد طے ہوا تھا۔

Advertisement

اگر انہوں نے یہ سوچا تھا کہ فوجیوں کی بڑی تعداد کو بیس کیمپ سے ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر میدان جنگ میں، جبکہ درمیان میں دشمن  کی سرزمین بھی آتی ہو، دھکیل دینا غیر دانشمندانہ ہوگا، تو انہوں نے اسے روکنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے؟ جنگ لڑی اور ہاری گئی۔ ڈھاکہ میں فوجی ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرنے کے نتیجے میں پاکستان کے ٹکڑے ہو گئے۔

یہ یحییٰ خان ہی تھے جنہوں نے بہت سے دوسرے لوگوں کے دانشمندانہ اور دوراندیشی پر مبنی مشوروں کے خلاف بھٹو کی خراب نیت کے سامنے ہار مان لی جو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کرنے کی التجا کرتے رہے۔ بھٹو کو چھوٹ دی گئی، لیکن، حتمی تجزیہ میں، الزام صرف اس شخص پر عائد ہوتا ہے جو سیاسی اور فوجی ڈومینز میں مشترکہ کمان رکھتا ہو۔ وہ اکیلا ہے جسے متحدہ پاکستان کو توڑنے والا کہا جائے گا۔ اس کے باوجود، وہ محفوظ رہا جب کہ اس کے اہم اور سازشی ساتھی کے حوالے ملک کی باگ ڈور کردی گئی۔ باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔

درد غائب ہونے سے انکاری ہے۔ ہر دسمبر کی آمد کے ساتھ اس میں شدت آ جاتی ہے، اب اس لیے کہ ملک مؤثر طور پر سزایافتہ، مجرموں اور فرار ہوجانے والوں کے ایک جتھے کے محاصرے میں ہے۔ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کا موجودہ زمانے سے موازنہ براشگون ہے۔

Advertisement

Next OPED