حنان آر حسین

02nd Oct, 2022. 09:00 am

گیس کا معاہدہ درست ہے

چین اور روس کی دو طرفہ تجارت کا حجم 250 ارب ڈالر تک پہنچنےکا امکان ہے دونوں ممالک مقامی کرنسیوں میںکاروبار کر رہے ہیں

حالیہ اعداد و شمار سے چین- اور روس  کے درمیان گیس کی تجارت میں بڑے پیمانے پر اضافے کا  انکشاف ہوا ہے، دوسری جانب عالمی تنوع  کے چیلنجز  توانائی کے بحران کو حل کرنے کے بجائے اس کی شدت بڑھارہے ہیں۔ بیجنگ کی جانب سے روسی گیس کی درآمد 410 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو کم از کم جنوری 2017ء کے بعد مبینہ طور پر سب سے زیادہ ہے۔ اہم علاقائی طاقتوں، بشمول وہ جو سستی گیس کی متلاشی ہیں، کے لیے پیغام اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتا کہ رسائی ہی سب کچھ ہے۔

یہ معاہدہ اس بات پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کرتا ہے  کہ کیسے اسمارٹ کرنسیاں  گیس کے معاملات یاتجارت کو ڈالر کے غلبے سے دور لے جانے میں معاون ہوئی ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ کے لیے اس سے ان کے دوطرفہ مفادات کی بہترین نمائندگی ہوتی ہے – اور کسی بھی قوم کو یہ حکم نہیں دینا چاہیے کہ ان مفادات کو کیسے پورا کیا جائے۔ علاقائی خواہشمند،ان )دونوں ممالک( کی پیروی کرسکتے ہیں۔

اب آئیے روس کے گیزپروم اور چین کی نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن (CNPC) کے درمیان طے پانے والے اہم معاہدے کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اس میں چین کے لیے گیس کی ادائیگیوں کو روبل اور یوآن میں تبدیل کرنے پر توجہ دی گئی۔ ” ادائیگی کا نیا طریقہ کار باہمی طور پر فائدہ مند، بروقت، قابل اعتماد اور عملی حل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کاروباری لین دین کو تیز کرے گا، دوسری کمپنیوں کے لیے ایک بہترین مثال قائم کرے گا اور ہماری معیشتوں کی ترقی کو مزید تحریک دے گا،” اس ماہ ویڈیو کانفرنس اجلاس کے بعد گیز پروم کے سی ای او، الیکسی ملر نے کہا تھا۔

ادائیگی کی )ڈالر سے روبل اور یوآن ( میں تبدیلی کے بارے میں خوش امیدی کی بنیاد مستحکم ہے۔اور یوآن کی علاقائی تبدیلی سے فائدہ اٹھانے کے خواہشمندوں کو  بالخصوص اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ بہر حال، روس سے گیس کے حجم میں جس اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ خاصا اہم ہے، اور قومی کرنسیوں کی طرف تبدیلی روس چین گیس کی سپلائی کو مالیاتی مداخلت، بنیادی طور پر ڈالر پر مبنی فروخت کے طریقہ کار کے ذریعے مداخلت،  سے نمایاں  طور پر محفوظ  رکھےگی۔ ڈالر کے ” بطور ہتھیار استعمال کے بارے میں وسیع تر خدشات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ توانائی کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہونے کے باعث پاکستان بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کا شکوہ کر رہا ہے۔

Advertisement

چین اور روس کے تجارتی تعلقات کو خود دونوں دارالحکومتوں میں کافی سفارتی حمایت حاصل ہے، ان کی معیشتوں کے مفادات کو ادائیگی کے آسان حل کے ذریعے فروغ دیا گیا ہے، اور دو طرفہ تجارت کا تخمینہ 2024ء تک تقریباً 250 ارب ڈالر تک پہنچنے کا ہے۔

اب جب کہ یوروپی مارکیٹ، جو روسی گیس کی اہم صارف ہے- کو روسی تیل کی  متنازع قیمت مقرر ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، اس صورتحال میں چین کی گیس کی درآمدات میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اس سے بنیادی توانائی کی فراہمی کے لیے لچکدار کرنسیوں کو ترجیح دینے میں معاہدے  کی اہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے ، اور اس سے چین کے  اہم اتحادیوں کے لیے اپنے تزویراتی مفادات کے اظہار کے لیے ایک اور راستہ بھی کھل گیا ہے۔ یہ 37اعشاریہ5 ارب ڈالر کے گیس کی فراہمی کے معاہدے کی توسیع  کے ضمن میں ایک بڑی جیت ہے جس پر بیجنگ اور ماسکو کے درمیان پہلے دستخط کیے گئے تھے، اس لیے کہ گیس کی تجارت میں اضافہ ہورہا ہے اور متعدد رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس )گیس کی تجارت(  میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

چونکہ روسی تیل پر پابندی  کی لاحاصل مغربی کوششیں بلا روک ٹوک جاری ہیں،  لہذا بیجنگ اور ماسکو کے لیے گیس کی ادائیگیوں کے لیے اپنے باہمی موافقانہ انداز میں ایک مثال پیش کرنا ضروری ہے۔ جی سیون (G7)  ممالک روسی تیل کی قیمتوں کی متنازعہ حد کے لیے لابنگ کرتے ہوئے عالمی توانائی کی منڈیوں کو مزید تقسیم کرنے پر اٹل ہیں، اس خدشے کے باوجود کہ ان  کا یہ اقدام بڑے صارفین پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کچھ حد تک، یہ اثرانداز ہوبھی رہا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر، روبل اور یوآن میں گیس کی ادائیگی کے آسان اور عملی حل کا ماڈل توانائی کے تعاون کے لیے ایک مثبت مثال قائم کرتا ہے جس کی دنیا بھر کی متعدد معیشتیں تلاش کر رہی ہیں۔

یہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے خطرات سے خوش آئند نجات کی بھی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ ڈالر پر مرکوز ادائیگیاں خطرات پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں، جسے مغرب نے نظر انداز کیا ہے کیونکہ اس کا مقصد روس کو  حقیقی طور پر جھکانا ہے۔  یہاں تک کہ دو طرفہ سطح پر بھی، یہ معاہدہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ چین اور روس کے درمیان تیل کے معاملات یا معاہدے بلاک کی قیادت میں قیمتوں کے تعین اور تیل کی یکطرفہ پابندیوں کی سیاست سے  محفوظ رہیں گے۔

 دانش مندانہ اور عوام پر مرکوز معاہدے کا مستقبل ایسا ہی نظر آنا چاہیے۔ جنگیں تقسیم پیدا کرتی ہیں، جب کہ قومی مفادات – بشمول سستی توانائی کی فراہمی – عوامی دادرسی  کا مرکز ہیں۔ قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں صورت میں۔

Advertisement

دلچسپ بات یہ ہے کہ گیزپروم معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب چین اور روس دونوں اپنی، وقت کے امتحان سے گزری، شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے خواہاں تھے، جس کو دنیا کے لیے ‘نئے ماڈل’ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی  رجائیت پسندی کے  ساتھ روس جولائی میں  مسلسل تیسرے مہینے چین کو سب سےزیادہ تیل فراہم کرنے والا ملک رہا۔ دونوں ممالک  اپنی منڈیوں کو کھولنے کے عزم کو پورا کر رہے ہیں، اور آزاد تجارتی انتظامات کے کلیدی شعبوں میں براہ راست یوآن-روبل کے بندوبست کے بلند امکانات کی توقع کر رہے ہیں۔

یہیں سے چین کو مستقبل میں  پائپ لائن کے ذریعے  گیس کی برآمدات کو ایک بڑی ترقی کی منڈی میں داخل ہونے سے فائدہ پہنچے گا جو قومی کرنسیوں میں معاملات طے کرنے کے لیے موزوں ہے۔ ایک طرف،  50 فیصد ادائیگی روبل میں اور 50 فیصد یوآن میں طے ہونے سے کرنسیاں مضبوط ہوتی ہیں جیسا کہ حالیہ مہینوں میں روبل کے  معاملے میں دیکھنے میں آیا۔

اور دوسری طرف، یہ معاہدہ چین اور روس کے درمیان توانائی کی فراہمی کے تعاون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے بہت ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس دائرہ کار کے ایک حصے میں مستقبل میں چین کو پائپ لائن کے ذریعے روس کی گیس برآمد کرنے کی صلاحیت کو 130ارب مکعب میٹر سے اوپر لے جانے  کے مواقع شامل ہیں۔ ادائیگی کا ایک آسان طریقہ کار اس کے حصول میں سہولت فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہ قیمت کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے اور گیس کی فراہمی کے مزید راستوں کو شامل کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

گیزپروم نے ایک بیان میں کہا، “‘مشرقی روٹ، پاور آف سائبیریا گیس پائپ لائن کے ساتھ طویل مدتی گیس کی خرید و فروخت کے معاہدے کے لیے اضافی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

ماضی اور حال کے رجحانات اس بات پر متفق ہیں کہ چین-روس کے معاہدہ شدہ گیس کی فراہمی میں مسلسل اضافہ کرنے کے انتظامات کامیاب ثابت ہوئے ہیں، اور وہ یوآن اور روبل  میں ادائیگیوں کے بندوبست کو فروغ دے کر تقویت پانے کے مستحق ہیں۔ علاقائی مفادات اس عملی  معاہدے سے اہم سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

مصنفہ کالم نگار، کنسلٹنٹ،کوچ اورتجزیہ کار ہیں، ان سے [email protected] اورAndleebAbbas پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

Advertisement

Next OPED