ڈاکٹر حسن شہزاد

30th Oct, 2022. 09:00 am

پاکستان کی ڈیووس کانفرنس سے امیدیں

دنیا بھر میں سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں رکاوٹوں کا شکار ہیں، دنیا کو نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے

مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

غلط خبریں پاکستان میں جنگل کی آگ سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔پہلے میڈیا اور اس  کے بعد  اکیڈمیا  کو  اس خرابی کے لیے ذمہ دار قرار  دیا جاتا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب پر میڈیا پر جو تبصرہ کیا گیا وہ قیاس آرائیوں سے بھرپورہے جن کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔اس دورے کو ان تنازعات سے جوڑا جا رہا ہے جو اندرون ملک سیاسی محاذ پر اس وقت جاری ہیں ،  جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مملکت اس کا ساتھ دے رہی ہے۔وزیر اعظم، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور پاکستان کے دیگر حکومتی نمائندوں کو ’  فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو ‘میں مدعو کیا گیا، یہ ایک سالانہ تقریب ہے جس کی میزبانی ریاض گزشتہ چھ سالوں سے کر رہا ہے۔اس  اجلاس میں  دنیا بھر سے  50 ممالک نے شرکت کی ، پاکستانی حکومت کی  جانب سے اس اجلاس میں 6 ہزار  نمائندوں سے زائد  شریک ہوئے ۔اس کے باوجود سعودی ذرائع ابلاغ نے انہیں نمایاں طور پر  کوریج نہیں دی ۔ جب کہ انگریزی زبان کے مرکزی  اخبارات میں، سعودی اور چینی، امریکی اور روسی فیصلہ سازوں کے درمیان بات چیت   کو اہم ایجنڈے  کے طور پر پیش کیا گیا۔ایک چینل نے  وزیر اعظم شہباز شریف کی اسٹیج پر کھڑے ہونے کی مختصر فوٹیج جاری کی اور بتایا کہ  وزیر اعظم ’ ڈیوس ان دی ڈیزرٹ ‘ کےحوالے سے شاندار انتظامات سے کس حد تک متاثر نظر آرہے ہیں ۔

کانفرنس کی تھیم’ انسانیت میں سرمایہ کاری، ایک نئے عالمی نظام کو فعال ‘کرناتھا۔جب سے  امریکا نے اسے متعارف کرایا ہے تب سے ’نئے عالمی آرڈر‘ کی طرف کھینچا تانی ناقابل تلافی ہے۔امریکا  کے زیر اہتمام آرڈر، بنیادی طور پر دنیا کو یک جہتی کی طرف لے جانے کا اقدام تھا، لیکن اس نے دنیا کو وہ کچھ نہیں دیا جس کا اس نے وعدہ کیا تھا۔دولت کے بہاؤ کی طرح معلومات کا بہاؤ  بھی یک طرفہ تھا۔اس حوالے سے سعودی اقدام کو   زیادہ موثر  کہا  جاسکتا ہے۔  سعودی عرب اور امریکا کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے، جس کی شروعات امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے تبصروں سے ہوئی۔

بلنکن نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی دوبارہ بحالی  کا  مطالبہ کیا اور بہت سے سعودی اعلیٰ حکام نے یہ واضح کرنا شروع کر دیا ہے کہ ان کا ملک اور عوام ان کےلیے پہلے آتے ہیں۔تاہم  اس تعطل نے اعلیٰ امریکی سرمایہ کاروں اور میڈیا کے بڑے ناموں کو کانفرنس میں شرکت سے نہیں روکا۔سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان کا کہنا ہے کہ مملکت عالمی سرمایہ کاروں کے سرفہرست انتخاب میں شامل ہے کیونکہ مملکت کا بینک کاری کا شعبہ بہت مضبوط ہے اور اس میں لیکویڈیٹی کو کوئی چیلنج درپیش  نہیں ہے۔انہوں نے رائے دی کہ  فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو میں عالمی سرمایہ کاروں کی شرکت اس اعتماد کی نشاندہی کرتی ہے کہ دنیا نے ان کے نظام کے انداز میں  ترقی کی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مملکت جی 20 ممالک  میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے۔

Advertisement

سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفالح نے اس موضوع کے بارے میں  سعودی عرب  کے تصور کی وضاحت کے لیے ’  نیا عالمی آرڈر،ا سٹیٹ روم سے منظر ‘کے عنوان سے ایک پینل سے خطاب کیا۔ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں رکاوٹوں کا  شکار ہیں، ایک نئے عالمی آرڈر کی ضرورت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے  جو اس مسئلے کا  حل  تلاش  کر سکے۔انہوں نے  بجا طور پر نشاندہی کی کہ یہ  رکاوٹیں مہنگائی اور عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں ۔

ہم ڈیجیٹائزیشن  کے دور میں جی رہے ہیں ،  یہ اپنے پیرامیٹرز اور ایک قسم کی مرکزیت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس دور میں صنعت یا خدمات کے بجائے ڈیٹا سب سے زیادہ  اہم ہے۔یہ سب کچھ انسانیت کے لیے نئے چیلنجز  کی طرح سامنے آرہا ہے۔عرب نیوز نے رپورٹ کیا کہ برٹ کے سی ای او گیلوم لیکروکس نے ایک پینل کو بتایا کہ  چھ  سال پہلے، 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگ اور 30 سال سے کم عمر کے 60 فیصد لوگ ایک ہی چیز دیکھ رہے تھے۔یہ سال پہلے  اس کی شرح  بہت کم یعنی صرف  7 فیصد تھی ۔اس ڈیجیٹل دور میں جنریشن گیپ میں اضافہ تاریخ میں کسی بھی دور میں اپنی مثال آپ آپ ہے۔ چند  دہائیوں  قبل ڈیجیٹل ڈیوائسز کی آمد کے ساتھ، ہم پر ریورس لرننگ کا دور شروع ہوا جس میں بڑی عمر کے لوگ ٹیکنالوجی سیکھنے کے لیے چھوٹوں پر بھروسہ کرنا  سیکھ  رہے تھے۔

معاشرے کی ڈیجیٹلائزیشن دیہی علاقوں سے شہری مراکز کی طرف لوگوں کی نقل مکانی میں سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اب تک دنیا کی آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جو ترقی میں عدم مساوات کا شکار ہیں۔لیکن

اس کانفرنس میں مشترکہ اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی آبادی تقریباً 30 سالوں میں 9 اعشاریہ 7  ارب تک پہنچ جائے گی۔ اس آبادی کا 70 فیصد تک  2050 ء تک شہری مراکز میں رہ رہے ہوں گے۔اس  چیلنج سے نمٹنے کے لیے شہری مراکز کو سمارٹ اور انسانی زندگی کو سہارا دینے والی سہولیات سے آراستہ کرنا ہوگا۔صاف ہوا، پانی اور سبز علاقے مستقبل کے سرمایہ کاروں کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔سعودی  عرب کےشہر ان سہولیات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔یہ صرف چند موضوعات ہیں جنہیں میڈیا نے وزیر اعظم کے دورہ ریاض کے بعد شروع کرنا تھا۔پنجاب حکومت نے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں کے ارد گرد سرسبز علاقوں کی  نشان  دہی  کرنے کا اقدام اٹھایا ہے۔

لیکن اگر ہم عالمی سطح پر سوچیں، مقامی طور پر عمل کرنے  کی  پنچ لائن پر عمل کریں تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اسلام آباد اور سندھ شہری منصوبہ بندی کے جدید پیرامیٹرز کو مدنظر کیوں نہیں رکھتے؟

اس وقت اسلام آباد ایک میگا کنسٹرکشن سائٹ  کا  منظر پیش کر رہا ہے ۔ترقیاتی  منصوبوں کو شروع کرنے کے لیے تمام قائم شدہ طریقوں اور طریقہ کار کو ان تنظیموں کے ذریعے بلڈوز کیا جا رہا ہے جن کا مقصد ان پر عمل کرنا ہے۔نتیجے کے طور پر، شہر ایک  بے  کار  اور بدصورت جاندار کی طرح نظر آتا ہے ، یہ منظر جدید  دور میں بالکل بھی دیکھنے  سے تعلق نہیں

Advertisement

رکھتا ۔میڈیا اب کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا ایجنٹ نہیں رہا،بلکہ یہ جدید معاشرے کا حصہ  بن کر سامنے آرہا ہے۔ ہماری  اکیڈمی کو سماجی تبدیلی کے بارے میں سڑتی ہوئے نظریات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تیار ہونے والے پیشہ ور  جعلی خبروں کو ختم کریں۔انہیں  ’فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو‘  جیسی کانفرنسوں سے سازشی تھیوریاں نکالنے کے بجائے اس سے سبق حاصل  کرنا چاہیے ۔

Advertisement

Next OPED