کیا ہم مصنوعی ذہانت پر مشتمل مستقبل کے لیے تیار ہیں؟
اس ٹیکنا لوجی پر بالادستی کی دوڑ میں پاکستان کی رفتار سست ہے
لکھاری ایک فری لانس تجزیہ کار ہیں اور بین الاقوامی
اور خطے کے مسائل پر لکھتے ہیں۔
جیسے جیسے ہم 21ویں صدی میں آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری روزمرہ کی زندگی میں مصنوعی ذہانت (AI) کا کردار تیزی سے اہم ہوتا جا رہا ہے۔ اسمارٹ فونز اور گھریلو کام کاج میں مددگار آلات سے لے کر خودکار گاڑیوں اور طبی ٹیکنالوجی تک، مصنوعی ذہانت تیزی سے ہمارے رہنے اور کام کرنے کے طریقے کو تبدیل کر رہی ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل ہے اور جو ممالک اس کی طاقت اور صلاحیت کو بروئے کار لانے کے قابل ہوں وہ اس نئے تکنیکی انقلاب میں سب سے آگے ہوں گے۔ یہ ٹیکنالوجی تیزی سے ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک اہم پہلو بنتی جارہی ہے اور مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ بیماریوں کی تشخیص میں ڈاکٹروں کی مدد کرنے سے لے کر ہمارے روزمرہ کے کاموں کو زیادہ موثر بنانے تک پہلے سے ہی وسیع پیمانے پر مختلف کاموں کے لیے اس کا استعمال ہو رہا ہے ۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح، پاکستان بھی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اپنانے اور انضمام کے حوالے سے اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہے، جہاں کچھ افراد کا خیال ہے کہ ملک اے آئی کے ممکنہ فوائد سے استفادے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے۔
بدقسمتی سے، مصنوعی ذہانت )اے آئی ( کی بالادستی کی دوڑ میں پاکستان کی رفتار سست ہے۔ اپنی بڑی آبادی اور قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود، ملک AI ٹیکنالوجی کی ترقی اور اسے اپنانے میں دیگر اقوام سے پیچھے ہے۔ یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت تشویش ناک ہے، کیونکہ اگر یہ ملک باقی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں نہیں کرتا تو اس کے عالمی معیشت میں پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔ تاہم، تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی معیشت میں مسابقتی رہنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان تیزی سے آگے بڑھے۔ ان اہم عوامل میں سے ایک جس کی وجہ سے کچھ ماہرین پر امید ہیں کہ پاکستان AI کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے وہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے جن کا مجموعی آبادی میں حصہ نصف سے زائد ہے۔ 30 سال سے کم عمر کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی کے ساتھ، پاکستان کے پاس ممکنہ صلاحیتوں کا ایک اہم ذخیرہ ہے جسے AI ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں تربیت دی جاسکتی اور استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے حالیہ برسوں میں تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے جس کی وجہ سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی (STEM) کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے گریجویٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کو درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ AI ٹیکنالوجی ناقابل یقین حد تک پیچیدہ ہے اور اس کو وضع یا ڈیولپ کرنےکے لیے بہت زیادہ وسائل اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ امریکہ اور چین سمیت دنیا بھر کے بہت سے ممالک AI تحقیق میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، کچھ اندازوں کے مطابق 2025 ء تک عالمی AI مارکیٹ کی مالیت 190ارب ڈالر سے زیادہ ہو جائے گی۔ ایک اور عنصر جو پاکستان کو اپنی معیشت اور معاشرے میں AI کو کامیابی سے ضم کرنے میں مدد کر سکتا ہے، وہ اس کا مستحکم اور نموپذیر آئی ٹی سیکٹر ہے۔ پاکستان میں ایک متحرک ٹیکنالوجی کمیونٹی ہے اور یہ متعدد کامیاب اسٹارٹ اپس اور مستحکم ٹیکنالوجی کمپنیوں کا گھر ہے۔ یہ کمپنیاں پہلے سے ہی مختلف قسم کے AI سے متعلق منصوبوں پر کام کر رہی ہیں، اور پاکستان کی مصنوعی ذہانت سے متعلق صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے سلسلے میں یہ کمپنیاں تعلیمی اداروں اور اور صنعت کے درمیان ایک اہم پل کا کام کر سکتی ہیں۔
پاکستان AI پر تحقیق اور ترقی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ضمن میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، ملک نے 2018 ء میں تحقیق اور ترقی پر اپنی جی ڈی پی کا صرف 0اعشاریہ5 فیصد خرچ کیا، جبکہ عالمی اوسط 2اعشاریہ2 فیصد ہے۔ سرمایہ کاری کی یہ کمی پاکستان کی جدید ترین AI ٹیکنالوجیز کو تیار کرنے اور لاگو کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بنی ہے، جس سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ اگر پاکستان مصنوعی ذہانت کے ممکنہ فوائد حاصل کرنے ہیں تو اسے کئی چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ ان میں سے ایک سب سے اہم ملک میں بجلی کی دائمی قلت اور بجلی کی ناقابل اعتبار رسد ہے جس کا تدارک کرنا ہوگا۔ AI ٹیکنالوجی قابل بھروسہ اور سستی بجلی تک رسائی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، اور اس کے بغیر پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر AI سلوشنز تیار اور ان کا نفاذ کرنا مشکل ہوگا۔ AI کے حوالے سے پاکستان کو درپیش سب سے اہم چیلنج ملک کی تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی کی دائمی کمی پر قابو پانا ہے۔ AI کے ممکنہ فوائد سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے، پاکستان کو اپنے انٹرنیٹ انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے اہم سرمایہ کاری اور عزم کی ضرورت ہوگی۔
عالمی اے آئی کی دوڑ میں شامل ہونے کی جستجو میں پاکستان کو درپیش ایک اور بڑا چیلنج ہنر مند کارکنوں کی کمی ہے۔ AI ٹیکنالوجی کو تیار اور لاگو کرنے کے لیے اعلیٰ تربیت یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت درکار ہوتی ہے، اور بدقسمتی سے پاکستان میں ضروری مہارت رکھنے والے کارکنوں کی کمی ہے۔ اس کی وجہ سے جزوی طور پر تعلیم اور تربیت میں سرمایہ کاری کی کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں STEM ) سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی( مضامین پر توجہ نہ دینا ہے۔ تاہم، جیسا کہ ٹیکنالوجی مسلسل ترقی کر رہی ہے اور عالمی معیشت کے لیے مزید ناگزیر ہو رہی ہے، یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان مسابقتی رہنے کے لیے تیار ہو جائے۔ خودکاری کی صلاحیت کے علاوہ، AI میں بڑی مقدار میں ڈیٹا کا فوری اور درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اس سے بہتر فیصلہ سازی ممکن ہوجاتی ہے اور صحت کی دیکھ بھال سے لے کر مالیات تک وسیع شعبوں میں بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
مزید برآں، پاکستان کے بہت سے باصلاحیت اور ہنر مند کارکن بیرون ملک بہتر مواقع تلاش کرنے کے لیے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ قابل افراد کا بیرون ملک چلے جانا پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بڑی تشویش کی بات ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر اقوام پاکستان کو اس کے بہترین اور قابل ترین لوگوں سے محروم کررہی ہیں اور اس کی افرادی قوت میں ایک خلا پیدا ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، پاکستان کی جدید ترین AI ٹیکنالوجیز کو تیار کرنے اور لاگو کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے، جس سے ملک کے نقصانات مزید بڑھ رہے ہیں۔
تاہم، ان چیلنجوں کے باوجود اس بات کے آثار ہیں کہ پاکستان AI کی عالمی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے جن کا مقصد تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا، نیز AI فیلڈ میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کو مدد فراہم کرنا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے تعلیم و تربیت کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کو ان ممالک اور کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرنی چاہیے جو AI کی ترقی میں سب سے آگے ہیں کیونکہ اس طرح مہارت اور وسائل تک رسائی مل سکتی ہے جو ملک کو اپنی AI صلاحیتوں کو بہتر بنانےت میں تیار کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ مزید برآں، شراکت داری سے تعاون اور علم اور خیالات کے تبادلے کے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں جس کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں جدت اور ترقی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مزید برآں، پاکستان کے لیے بہت سے اسٹریٹجک فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ ملک جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔ پاکستان کا محل وقوع اسے AI ٹیکنالوجیز کی ترقی اور نفاذ کے لیے ایک اسٹریٹجک مرکز بناتا ہے۔ چین، روس اور جاپان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بھی اس کی کئی اہم شراکتیں ہیں۔
پاکستان ٹیکنالوجی کو اپنانے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے، لیکن تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی معیشت میں مسابقتی رہنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ملک تیزی سے آگے بڑھے۔ یہ مقصد تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے جو AI کی ترقی میں سب سے آگے ہیں۔ AI کو اپنا کر پاکستان مختلف شعبوں میں اپنی پیداواری صلاحیت، کارکردگی اور فیصلہ سازی کو بہتر بناسکتا ہے، اور ایک کامیاب اور روشم مستقبل کی جانب پیش قدمی کرسکتا ہے۔