پاکستانی سیاست کو قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے
مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں
پاکستانی سیاست میں کبھی بھی قابلِ تقلید روایات نہیں رہیں۔ ابھی تک نوآبادیاتی ذہنیت کی وارث ہونے کے سبب ملکی سیاست اچھے یا بُرے نظریات کے گرد ہی گُھومتی ہے۔ سیاسی عمل میں ہونے والی مُسلسل مُداخلتوں نے ایک موقع پرست ٹولہ پیدا کیا جس کا واحد مقصد سیدھے یا اُلٹے کسی بھی رستے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ سیاست دانوں میں شائستگی کے دن گزر گئے۔ اب ہمارے ہاں ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، مولانا مودودی، ولی خان، غوث بخش بزنجو، شیر باز مزاری، معراج محمد خان، یا ملک معراج خالد جیسے سیاستدان نہیں رہے جنہوں نے نوجوانوں کو متاثر کیا اور اِس بات کو یقینی بنایا کہ اُن کے پیروکار شائستگی کی حُدود سے تجاوز نہ کریں۔ ہمارے ہاں اب عوام کے حقیقی جذبات کی عکاسی کرنے والے فیض، فراز یا جالب جیسے شاعر بھی نہیں رہے۔ اب ہمارے ہاں کم ظرف پائے جاتے ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بے شک عوام کی محرومیوں پہ سیاست آج کے دور کا ایک کامیاب حربہ ہے جس کے نتائج غیرمُتوقع ہوتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری ماضی کی 75 سالہ تاریخ میں آمریتوں کے دوران کیا ہوا۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوار نے ملکی معیشت کو استحکام بخشا۔ اگر صنعت کاری کو ایوب دور کی پہچان کہا جاتا تھا تو ضیاء الحق اور مشرف دور میں معاشی ترقّی کو یقینی بنائے جانے کا دعوٰی بھی کیا جاتا تھا، قیمتیں قابو میں تھیں اگرچہ شوگر مافیا اُس وقت بھی من مانیاں کرتی تھی۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی فوجی حکمرانوں کے دور میں توازنِ ادائیگی کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی فوجی حکمرانوں کی قسمت بھی اُن کے ساتھ تھی۔ ایوب دور میں سرد جنگ عروج پر تھی جس کے باعث پاکستان امریکی توجّہ کا مرکز بنا اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری حاصل ہوئی۔
ایوب کے ترقّیاتی ماڈل نے سابق مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے، میں بے چینی پیدا کی۔ جدید تاریخ میں یہ ناقابلِ فہم تھا کہ اکثریتی صوبے نے چھوٹے صوبے سے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا۔ سادہ وضاحت یہ تھی کہ اقلیّتی صوبے (مغربی پاکستان) کے پاس جبری طاقت تھی جسے اُس نے اکثریتی صوبے کے خلاف بد دیانتی سے استعمال کیا۔ ذرا اُس ستم ظریفی کا تصوّر کریں کہ جب اقلیّتی صوبے نے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا تو ملک تقسیم ہو گیا۔
ضیاء اور مشرف کو ابتداً امریکیوں اور مغرب کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن افغانستان کے حالات نے اُنہیں بچا لیا۔ جنرل ضیاء کو اپنی قسمت کا شکرگزار ہونا پڑا جس نے ملک میں اُن کے مقام کو مُستردگی سے پسندیدگی کی مضبوط حیثیت دلائی۔ وہ افغان مجاہدین کے رہنما کے طور پر اُبھرے جو آج تک اُنہیں اپنا سرپرست مانتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ڈالر، کلاشنکوف اور منشیات کی بہتات تھی۔ ضیاء کے دور میں بدعنوانی نے بھی زور پکڑا۔
مشرف کی قسمت بھی مختلف نہ تھی۔ وہ 9/11 کے فوری بعد آنکھوں کے تارے بن گئے۔ ہم سبھی کو اچھی طرح یاد ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک میں اُن کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا تھا۔ وہ اقوامِ متحدہ کے احاطے میں جہاں بھی گئے 100 سے زیادہ کیمرے اُن کے پیچھے پیچھے تھے۔ بلاشبہ ملک کو اضافی برآمدات کے بغیر ہی ڈالروں کی بلا تعطّل فراہمی جاری تھی۔ صدر بش جونیئر مشرف سے اِس قدر متاثر تھے کہ وہ اُن پر کسی قسم کی تنقید قبول نہیں کرتے تھے اور اُنہیں “ایماندار، صاف گو آدمی” قرار دیتے تھے۔
تو ضیاء اور مشرف کے چلے جانے کے بعد کیا ہوا؟ بے نظیر بھٹو، نواز شریف یا عمران خان کے زیرانتظام سویلین حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی خیر سگالی پر مُنحصر تھیں۔ مجموعی طور پر سویلین حکومتوں سے “اچھی حکمرانی” کی توقع کی جاتی تھی، سادہ الفاظ میں ملکی معیشت میں بہتری لائیں گی۔ یہ ایک بہت ہی بڑا کام تھا کیونکہ تمام سویلین حکومتوں کو خود مختار اقتصادی یا خارجہ پالیسی چلانے کی گنجائش یا اختیار ہی حاصل نہ تھا۔
مشرف کے زوال کے بعد سے ملک کو ایک مخلوط نظام کا سامنا رہا ہے جسے اب عمران خان نے چیلنج کیا ہے، حالآنکہ وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے احسانات سے مُستفید ہو چکے ہیں اور اب بھی اُن کے حامی ہیں۔ عمران خان کی کرشماتی طاقت عوامی سیاست کے موافق تو ہو سکتی ہے لیکن یہ ملکی فلاح کے لیے ناکافی ہے۔ کسی شخص کا جلسہ پنڈال میں حاضرین کو مسحور تو کر سکتا ہے لیکن ایک بہتر مُستقبل فراہم نہیں کر سکتا۔ اُن کے مخالفین جنہیں بدعنوان قرار دیا جاتا ہے، اپنی بدعنوانی اور بدانتظامی کے بارے میں عوامی تاثر کو بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ نتیجتاً ملک میں سمجھدار اور اچھی حکمرانی کی بجائے انتشار کی کیفیّت دیکھی جا رہی ہے۔
اگرچہ ملک کی سیاسی دراڑیں دہائیوں کے دوران گہری ہوئی ہیں تاہم قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا سب سے بڑا نقصان رہا ہے جو کسی بھی مستحکم معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ زیادہ تر سیاست دانوں کے پاس ذاتی محافظ ہوتے ہیں جو سڑکوں پر طاقت اور دولت کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وفاقی یا صوبائی کابینہ کی موجودہ تشکیل کو دیکھیں تو سیاست ایک خاندانی کاروبار بن چکا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے واضح منصوبے پیش کرنے کے قابل نہیں ہے۔
تاہم ابھی بھی تلافی ممکن ہے، ملک کو اس بد انتظامی سے نکالنے کی ہلکی سی اُمید باقی ہے۔ ذرا اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اسکول اور ہسپتال ابھی بھی کام کر رہے ہیں، حالآنکہ کوئی بھی اِن کی کارکردگی پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ دیگر اداروں کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہ ہو مگر بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ لہٰذا جب ہمارا بنیادی ڈھانچہ برقرار ہے اور کم ترین سطح پر بھی کام کر رہا ہے تو ملکی اداروں کی کارکردگی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بڑھانے کے لیے حقیقی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت کو سیاسی استحکام حاصل ہو۔
امریکی قیادت میں جمہوری دنیا چین کے سیاسی نظام پر تنقید کر سکتی ہے۔ پھر بھی یہ چین کی اہلیّت کے نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتی جس نے 8 کروڑ سے زیادہ عوام کو غربت سے نکالا اور جو بنیادی انسانی حقوق کی شرط ہے۔ پاکستان میں مخلوط نظامِ حکومت کو سیاسی استحکام کے لیے بین الاقوامی اُصولوں اور معیارات پر عمل کرتے ہوئے خود کو ازسر نو تشکیل دینا چاہیے۔ یہ چینی سیاسی نظام کا استحکام ہی ہے کہ 2019ء میں ایک کروڑ سے زائد چینی بطور سیاح بیرون ممالک گئے اور اپنے ملک لوٹ آئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ چین کے سیاسی نظام سے مطمئن ہیں۔
لہٰذا ملکی سیاست میں تمام شراکت داروں کے لیے سیاسی اُصولوں پر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ کسی ادارے کو دوسرے پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ ایک قومی سلامتی کونسل کو حکمراں جماعت، حزبِ مخالف، سول اور ملٹری بیوروکریسی کی شمولیت سے تمام بڑے فیصلے لینے چاہئیں۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حکمرانی پر سویلین بالادستی ہی ملک کو آگے لے جا سکتی ہے۔ ایک سول بیوروکریٹ یا جنرل، کونسلر کا انتخاب نہیں جیت سکتا جبکہ ایک اچھا یا برا سیاستدان اپنے حلقے کے ہزاروں عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ مقتدر حلقوں کو ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے دیں۔
نظریاتی طور پر مندرجہ بالا تشخیص مثالی نظر آتی ہے جب تک کہ بارہا انتخابات میں اس بات کو یقینی بنانے کا تجربہ نہ کیا جائے کہ ملکی سیاست پختگی حاصل کر چکی ہے۔ تاہم ہم پاکستان میں جو بھی جمہوری یا آمریت کے نظام کی پیروی کریں گے اس کا فیصلہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے معیارات سے ہی کیا جائے گا۔ قانون کی حکمرانی پر مبنی سیاست ملکی عوام کے درمیان تعلّق کا احساس پیدا کرے گی جس کی ہر جگہ عزت کی جائے گی۔