رؤف حسن

08th Jan, 2023. 09:00 am

بدحالی کا عقوبت خانہ

مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan

اس بارے میں بحث کہ کس قسم کی حکومت بنی نوع انسان کے لیے بہترین ہو گی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود زندگی۔ لاتعداد مثالوں کا جائزہ لینے کے بعد، ناقدین اب اس ایک نکتے پر متفق ہوچکے ہیں کہ ایک اچھی حکومت کی نشانیوں میں لازمی طور پر انسانی وقار کا تحفظ اور اس میں اضافہ، اور زندگی کی قدر کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔ لیکن کیا ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہی تجربہ کرتے ہیں، یا اب بھی ایسے ذرائع اور طریقے ہیں جو حکومت کے حتمی مقصد کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں؟ کیا ایسی نادیدہ قوتیں موجود ہیں جو ریاستی امور کو چلانے اور ان معاملات پر اپنی چھاپ چھوڑنے کے لیے سرگرم رہتی ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ان کی مرضی سے قطع نظر کیسا برتاؤ کیا جائے، اور یہ کہ انہوں نے کس کو اپنے جائز نمائندوں کے طور پر ذمہ داری دی ہے؟

بدقسمتی سے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، انسانی وقار اور زندگی کی قدر کو سب سے زیادہ غیر اہم شے سمجھا جاتا رہا ہے۔ اکثروبیشتر ذہن انسانی کا خلل سمجھتے ہوئے انہیں بری طرح اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مجروح اور مسخ کیا گیا ہے یہاں تک کہ نسبتاً زیادہ ہمدرد راجا او ر مہاراجاؤں کے ساتھ ساتھ جدید دور کے جمہوری طور پر منتخب حکمرانوں کا بھی یہی طرزعمل رہا ہے۔ حکمرانوں کا زور بنیادی طور پر ہمیشہ اپنے مفادات کی تکمیل اور ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے اپنے حق کو مضبوط کرنے پر ہوتا ہے۔ باقی ہر شے حکمران خاندانوں کی ان معصوم لوگوں پر مسلط رہنے کے جنون کے آگے بے وقعت ہوجاتی ہے جو نسل در نسل اس ) جنون (کے مہلک نتائج بھگتتے آرہے ہیں۔

پرانے زمانے سے شہنشاہوں کی خوشنودی کے لیے روم کے اکھاڑوں میں بھوکے درندوں کے سامنے پھینکے جانے سے لے کر جدید دور کے قبائلی سرداروں اور طاقتور اشرافیہ کی ذاتی جیلوں میں بند کیے جانے تک انسانی زندگی، مٹھی بھر لوگوں کا ان لاکھوں مصیبت زدگان پر غلبہ قائم کرنے کے لیے ایک مستقل ہدف رہی ہے جو بہ دقت تمام زندگی سے ناتا برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے وقار کی کوئی قیمت نہیں ہے، اور ان کی زندگی طویل غیر انسانی آزمائشوں کے ذریعے انتہائی نازک دھاگے کے ساتھ جھول رہی ہے۔ ایک مختصر مگر بدعنوان اور طاقتور حکمران اشرافیہ کی جسمانی اور ہوس پرستانہ خواہشات کے سامنے انہیں زیر کرنے کے لیے عصمت دری اور لوٹ مار کو ایک خوش کن ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

جدید دور کی حکومتوں میں، اداروں کے افعال قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ کمزور اور غریب آبادیاں امید کی پرورش کرتی رہیں – چاہے ان کی عزت کی حفاظت اور ان کی زندگی کی قدر کو بڑھانے کے لیے یہ )امید (کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ یہ خصوصیات قانون کی کتاب میں فراہم کی گئی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے لیے پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ادارے کا طرز عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور ترقی پذیر دنیا کے کچھ دوسرے ممالک میں انصاف، منطق اور استدلال کے ذریعے غالب آنے کے بجائے قانون بندوق کی نال سے چلتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں یہ بندوق ہوتی ہے وہ اسے اپنے اور ان لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے جن کی وہ خدمت کررہا ہوتا ہے۔

Advertisement

پاکستان کے معاملات میں یہ صورتحال طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے اور ملک پہلے ہی چار بار مارشل لاء کا مزہ چکھ چکا ہے۔ نتیجتاً، حکومت کو اختیار استعمال کرنے کے بجائے، اسے آئین کی متعدد دفعات کے مطابق ریاست کے معاملات چلانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ حکومتی اختیار بندوق کی طاقت رکھنے والوں اور ان لوگوں کے اکٹھ نے ہڑپ کر لیا ہے جنہوں نے دولت کے ڈھیر جمع کرلیے ہیں۔ ان قوتوں کا خیال ہے کہ وہ کسی بھی قانون یا کسی ایسے ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں جس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مجرموں کا محاسبہ کرے۔ قانونی طور پر قائم حکومت، جو عوامی مینڈیٹ کے جائز مظہر کے طور پر شکل اختیار کرتی ہے، سے ہٹ کر حکومت کی تشکیل اور حکومت چلانے کا یہ تصور پاکستانی سیاست کی ایک خوفناک خاصیت بنا ہوا ہے اور اس پہلو نے اس ملک کی ترقی کی رفتار کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کے اتحاد اور یگانگت سے چھیڑ چھاڑ کی ہے۔

اگرچہ حکومت کی یہ شکل پوری طرح عوام کی نظروں کے سامنے نہیں رہی تب بھی یہ جمہوریت کے دھندلے پردے کے پیچھے سے طاقت اور دولت کے مکروہ مظاہرے کے ذریعے کام کرتی رہی ہے ۔ یہ نشانیاں گزشتہ سال میں سب سے زیادہ نمایاں ہوئیں جب پہلے جمہوری حکومت کو ہٹایا گیا اور پھر پارٹی کے ارکان پر دہشت مسلط کردی گئی جن کے ساتھ ریاستی اداروں کی حراست میں انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ سابق وزیراعظم کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا۔ انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ان کی ٹانگ میں تین گولیاں لگیں۔ وہ اب بھی ان زخموں سے پوری طرح صحت یاب نہین ہوسکے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے تھے۔

مزید برآں، ان کے خلاف متعدد جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ہیں تاکہ انہیں اپنی پارٹی کی قیادت اور سیاست میں حصہ لینے سے نااہل قرار دے دیا جائے۔ کوئی بھی ادارہ تن تنہا یہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس سازش کو پورے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر انجام دیا گیا۔

صدیوں کی بحث نے ہمیں اس ذلت آمیز راستے تک پہنچایا ہے۔ یہ ایک ناقص مجموعہ ہے جو عوام کو پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اس میں سے انتخاب کرلیں: مارشل لاء کی حکومت، یا مجرموں اور بدمعاشوں کے ایک گروہ پر مشتمل حکومت، جس کی ڈور ہمہ گیر، لیکن نادیدہ قوتوں کی طرف سے احتجاج کے امکان کو روکنے کی خاطر انتہا درجے کا خوف پیدا کرنے کے لیے کھینچی گئی ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے آزادی کے تحفظ کی جدوجہد کمزور نہیں پڑی۔ درحقیقت، اس جدوجہد کو مزید تقویت اور رفتار ملی ہے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے لیڈروں کو منتخب کرنے کے لیے آزاد نہیں ہوتے اور لیڈروں کو ریاست اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنے کے اپنے اختیارات استعمال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی، تب تک وہ قابلِ رحم حالات نہیں بدلیں گے جنہیں کئی دہائیوں سے اس ملک کے بے اختیار عوام برداشت کررہے ہیں۔

ایک جھوٹی درجہ بندی والی ‘جمہوری’ حکومت کے سائے تلے، لوگوں نے ایک فاشسٹ حکومت کے بدترین ظلم سہے ہیں جہاں ان کے گھر بار غیرمحفوظ ہوگئے، نصف شب کو ان کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی اور ان کے اہل خانہ کو بدترین ذہنی، جذباتی اور جسمانی اذیت پہنچائی گئی۔ آڈیو اور ویڈیو لیکس، زیادہ تر جھوٹی اور من گھڑت، کے پھیلاؤ نے ریاست کی اخلاقی عمارت کو تباہ کر دیا ہے۔ متاثرین بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ہوس ناک نگاہوں اور بیمار ذہنوں کے سامنے برہنہ کر دیا گیا ہے جو ان پر جھپٹنے کے لیے موقع کا بڑی مسرت کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔

حرص و ہوس کی سنگین بیماریوں سے متاثر ہونے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ہم فی الحال اس ریاست کے ایک خام اور گھٹیا مظہر کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹیں اور سوچیں کہ ہم اس ملک کو بدحالی کے ایسے عقوبت خانے میں کیوں تبدیل کر رہے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ عقوبت خانہ اندھیرے میں چھپے سائے سمیت ہر ایک کو اپنی تاریکیوں میں کھینچ لے گا، اور کسی کے لیے راہ فرار نہیں ہوگی۔

Advertisement

Next OPED