خواتین سے متعلق طالبان کا ذہنی خلل
مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں
طالبان کا جامعات میں خواتین کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ چونکا دینے والا ہے۔ یہ توقعات کے لیے ایک دھچکا ہے کہ یہ مذہبی گروہ، اپنے دوسرے رُوپ میں اسلامی شریعت کی تشریح کرتے ہوئے، خاص طور پر خواتین کے طرزِعمل اور حقوق سے متعلق معتدل مؤقف کا حامل ہوگا۔ یہ اعلان اتنا اچانک تھا کہ ننگرہار میڈیکل یونیورسٹی میں طالبات کو اپنے فائنل امتحانات میں شرکت سے منع کر دیا گیا۔ مرد طلبا نے بھی اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے امتحانات کا بائیکاٹ کیا۔ کابل میں طالبان نے مشتعل طالبات کو زبردستی منتشر کر دیا جبکہ کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔
طالبان کے اب تک کے رویے کو دیکھتے ہوئے سال2023 ء میں کم از کم افغان خواتین کے لیے شاید ہی کوئی وعدہ پورا ہو پائے۔ امکان ہے کہ وہ خواتین سے کسی شے یا بس محنت کرنے اور بچے پیدا کرنے والے کی طرح سلوک کریں گے ۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک ناخواندہ عورت اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتی ہے۔ طالبان کی لغت میں خواتین کو حقیر سمجھا جاتا ہے، عوام میں ان کی موجودگی کو گناہ اور بدکاری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اُن سے زبردستی اور اُن کے حقوق، یہاں تک کہ اسلام اور معاشرے کی طرف سے عطا کردہ حقوق سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔
جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا، جامعات کی کلاسیں صنفی امتیاز کے تحت ہونے لگیں۔ طالبات سے کہا گیا کہ وہ ہدایات کے مطابق اپنے لباس کو درست کریں، یعنی اپنے چہرے کو ڈھانپیں اور گہرے رنگ کا لباس پہنیں۔ خواتین طالبات کو یا تو خواتین اساتذہ یا بزرگ مرد پڑھا رہے تھے۔ تاہم طالبان کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔ وزیر تعلیم مُلّا ندا محمد ندیم کا کہنا ہے، “ہم نے لڑکیوں کو مناسب حجاب پہننے کو کہا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور انہوں نے ایسے کپڑے پہنے جیسے وہ شادی کی تقریب میں جا رہی ہوں”۔ اُنہوں نے جامعات میں لڑکیوں کو پڑھائے جانے والے مضامین کے بارے میں عجیب و غریب منطق پیش کی۔ انہوں نے کہا، “لڑکیاں زراعت اور انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں مگر یہ افغان ثقافت سے میل نہیں کھاتی تھی۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن اُن شعبوں میں نہیں جو اسلام اور افغانوں کی عزت کے خلاف ہوں”۔
کوئی پوچھے کہ طالبان دنیا کے سامنے کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اِس جبر کے ذریعے اسلام کی کیا شبیہہ پیش کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ علمائے کرام نے طالبان کی کارروائیوں پر معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو تمام مسلم ممالک کے لیے سراسر شرمندگی بن رہی ہے۔ مسلم دنیا، بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو طالبان کی غنڈہ گردی، اسلام کی شبیہہ کو داغدار کرنے، خصوصاً خواتین کے حقوق کے حوالے سے اِس پر توجّہ دینی چاہیے۔ مسلم دنیا میں کہیں بھی خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے حق سے محروم نہیں کیا جاتا۔
زراعت اور انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے بارے میں افغان وزیر کا استدلال مُضحکہ خیز ہے اور یہ اسلام اور اسلامی طرزِ زندگی کی محافظ ہونے کا دعویٰ کرنے والی عسکری تنظیم کی ذہنی صحت پر سوال اٹھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مرد ہو یا عورت، نہ صرف تعلیم ہر فرد کا پیدائشی حق ہے بلکہ انہیں کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ طالبان وزیر کی منطق کی بنیاد پر افغان خواتین کو زراعت کے شعبے میں کام کرنے، مویشی پالنے یا میلوں دور سے پانی لانے سے بھی منع کیا جانا چاہیے۔
طالبان وزیر کے اس دعوے کے برعکس کہ زراعت اور انجینیئرنگ کے شعبے افغان ثقافت کے خلاف ہیں، افغان خواتین نے موقع ملنے پر مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ افغان وزیر کے خیالات طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں ایک ذہنیت کے عکاس ہیں جو افغان معیارات کے لحاظ سے بھی دنیا بھر سے غافل ہے۔ افغان ثقافت میں خواتین پر کچھ پابندیاں ضرور ہیں تاہم یہ تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ باپ اپنی بچیوں کو موٹر سائیکلوں یا سائیکلوں پر میلوں دور اسکول لے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب طالبان نے ثانوی اسکولوں کی “عارضی” معطلی کا اعلان کیا تو سینکڑوں افغان خاندان پاکستان منتقل ہو گئے تاکہ اُن کی بیٹیاں تعلیم حاصل کر سکیں۔ جامعات کی طالبات پر گزشتہ ہفتے کی پابندی کے نفاذ کے بعد بڑی تعداد میں افغان خاندانوں کی پاکستان اور ایران نقل مکانی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
80 لاکھ سے زائد افغان اپنے ملک کے غیرمستحکم حالات کے باعث90 سے زیادہ ممالک میں پناہ گزین ہیں، جبکہ اپنے ہی ملک میں بے گھر 40 لاکھ سے زائد افغان ناسازگار حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کم از کم 90 فیصد افغان عوام غربت کی لکیر سے بھی مِیلوں نیچے ہیں۔ طالبان حکومت تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ عوام کو آسانیاں فراہم نہیں کر سکتی جو بھوک اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اِس صورتحال سے بچّے سب سے زیادہ دوچار ہیں کیونکہ50 لاکھ سے زائد بچّے غذائیت کا شکار ہیں۔ عالمی سماجی و اقتصادی اشاریوں کی پستی میں موجود افغانستان میں خواتین کو تعلیم سے محروم کرنا ملک کو مزید تاریک دور میں دھکیل دے گا۔
عطیہ دہندگان کی اُکتاہٹ کے سبب مُستقبل میں افغانستان کی مشکلات میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان عالمی اُفق سے دور ہو گیا ہے کیونکہ یوکرائنی بحران نے مغرب کی زیادہ توجہ حاصل کی۔ مغرب کے لیے یورپی ممالک میں80 لاکھ یوکرائنی تارکینِ وطن کی بحالی کو افغان عوام کی حالتِ زار پر فوقیت حاصل ہے۔ ایسے میں طالبان کے اقدام نے قوم کی ایک بھاری اکثریت کو مزید الگ تھلگ کر دیا ہے۔
طالبان نے بھلے ہی ملک پر قبضہ کر لیا ہو لیکن وہ اِسے مؤثر طور سے چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی لگاتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ اگر خواتین ڈاکٹرز یا ٹیکنیشن نہیں ہوں گی تو وہ خواتین کی صحت کے مسائل سے کیسے نمٹیں گی۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ خواتین ابتدائی اور ثانوی سطحوں سمیت اچھی خواتین اساتذہ تخلیق کرتی ہیں۔ سینکڑوں اور ہزاروں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا پہلے سے جاہل معاشرے کی محرومیوں میں اضافہ ہی کرے گا۔ خواتین طالبات پر پابندی کے ایک دن بعد طالبان نے 3 ہزار سے زائد افغان خواتین پر اقوامِ متحدہ اور دیگر عطیہ دہندہ اداروں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی لگا دی۔ نتیجتاً عطیہ دہندہ اداروں نے اپنا کام معطل کر دیا ہے۔ یہ لاکھوں ضرورت مند افغانوں بالخصوص بچوں کے لیے مزید مصائب کا باعث ہوگا۔
طالبان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ غربت سماجی بےامنی اور بدحالی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ معاشرے میں برائیوں کا ذریعہ اعلیٰ تعلیم نہیں بلکہ غربت ہے جو لوگوں کو اپنے بچّے، اعضاء، حتیٰ کہ اپنے جسم تک فروخت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں خواتین کو نوکریوں سے نکالنے کے منفی نتائج کے ساتھ غربت کا اشاریہ مزید بلند ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ طالبان جس قسم کا حجاب خواتین پر نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ افغان خواتین میں اخلاقیات قائم کرنے کی ضمانت نہیں ہے، خاص طور پر اگر وہ روزی روٹی سے محروم ہیں۔
ملک میں سلامتی کی اُبھرتی ہوئی صورتحال2023 ء کے لیے اُمید افزا منظر پیش نہیں کرتی۔ دنیا میں تنہائی کے شکار طالبان کو سخت انتخاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سماجی آزادیوں پر مذہبی عسکری تنظیم کے سخت اقدامات ملک بھر کے عوام کے لیے ایک نکتہء اختلاف بن سکتے ہیں۔
طالبان کو2023 ء میں دوہرے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا امکان ہے۔ پہلا، اسلامک اسٹیٹ خراسان (آئی ایس کے) کے بڑھتے ہوئے حملے اور دوسرا، احمد مسعود کی جانب سے سابق شمالی اتحاد کے اتحادیوں سے اپنی قومی مزاحمتی تحریک (این آر ایم) کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوششیں۔ کچھ بیرونی مدد جس کے لیے بہت سے ممالک تیار ہوں گے، مذہبی عسکری تنظیم کے جبری خاتمے کے لیے بطور مُحرّک کام کر سکتی ہے۔ اگر طالبان سمجھتے ہیں کہ وہ افغانستان پر حکمرانی کے حقدار ہیں تو اُنہیں اِس ملک اور دنیا بھر میں موجود افغانستان کے دوستوں کی آواز کو سننا چاہیے۔ تاہم ایسا کرنے کے لیے اُنہیں اپنے ’’خواتین سنڈروم‘‘ سے باہر آنا پڑے گا۔






