مقبوضہ جموں و کشمیر – جنت کی ایک خوف زدہ روح
دنیا اور ہمارا خطہ جیو اسٹریٹجک اور جیو اکنامک تبدیلی اور تنظیم نو دونوں کا مشاہدہ کر رہا ہے
مُصّنفہ چین ،یورپی یونین اور آئرلینڈ میں
سفیر رہ چکی ہیں
1947ء میں برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی اور خودمختاری کی جو امید اور امنگوں کا جو ماحول تھا، جموں و کشمیر میں بھی بالکل یہی فضا تھی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ کشمیریوں کو دھوکہ دیا جائے گا اور یہ خواب اور امنگیں ان سے جبرا چھین لی جائیں گی اور کشمیریوں کی نسلوں کو بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں وحشیانہ جبر کا نشانہ بنایا جائے گا۔
افسوس، محکومیت اور انتقامی کارروائیوں کے خوف کے بغیر آزاد فضا میں سانس لینے اور ترقی کرنے کے خوابوں کی جگہ جبری گمشدگیوں، جھوٹے پولیس مقابلوں، بچوں اور بڑوں کو یکساں طور پر نابینا یا ہلاک کرتی پیلٹ گنوں ، عصمت دری اور قتل کرنے کی کھلی چھوٹ نے لے لی ہے جس کی وجہ سے ‘ جنت نظیر کشمیر’ ہزاروں ‘آدھی بیواؤں’ سے آباد دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں بدل گیا ہے حہاں بے نشان اجتماعی قبریں جو اپنے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے تشدد، نہ ختم ہونے والے کرفیو اور اب الحاق کی ہولناک داستانیں سموئے ہوئے ہیں۔ بھارت کی طرف سے نسلی تطہیر اور آبادیاتی توازن کو غیر کشمیری ہندو آباد کاروں کے حق میں تبدیل کرنا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کی قراردادوں کی شرمناک خلاف ورزی ہے۔
اس سے بھی بدتر بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کا بہرا پن اور خاموشی ہے۔
مصائب و آلام کی اس کہانی کا آغاز 26 اکتوبر 1947 ء سےہوتا ہے جب مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے خطے میں ایک نہ ختم ہونے المیے کو جنم دیا۔ اس مشکوک الحاق کے بعد 27 اکتوبر کو بھارت نے اپنی فوجیں جموں و کشمیر کی سرزمین پر اتار دیں، جس کے بعد سے یہ دن نہ صرف غیر قانونی طور پر بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) بلکہ دنیا بھر میں تارکین وطن کشمیریوں کی طرف سے اور پاکستان میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
قیام پاکستان سے 25 روز قبل سری نگر میں کشمیریوں کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد بھارت اور دنیا کے لیے واضح پیغام تھی کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ تاریخ پر گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان نے جوناگڑھ اور حیدرآباد دونوں کے الحاق کا جواز اس بنیاد پر دیا تھا کہ ان کے باشندے ‘انڈین یونین’ میں شامل ہونا چاہتے تھے، حالانکہ جوناگڑھ کے حکمران نے پاکستان کے حق میں الحاق کے دستاویز پر باضابطہ طور پر دستخط کیے تھے۔ اسی اصول کی بنیاد پر، ہندوستان کو کشمیر کے لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دینی چاہیے جیسا کہ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو دونوں نے کھلے عام وعدہ کیا تھا۔
ہندوستانی آزادی ایکٹ کے مطابق، ریاستوں کا کسی ایک یا دوسرے سے الحاق حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ الحاق کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ریاست کا رہنما ریاست کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔ لیکن یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ حکمران کا فیصلہ ریاستوں کی، جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں اس کے ساتھ جغرافیائی مناسبت اور اس کی فرقہ وارانہ ساخت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہندوستانی رہنما جانتے تھے کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ فطری تعلق ہے، اور مسلم آبادی کی اکثریت کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق ہو سکتا ہے۔
لہٰذا، مہاراجہ پر مئی 1947 ء میں کانگریس پارٹی کے ایک سیاستدان نے اپنے دورے میں سیاسی دباؤ ڈالا اور انہیں ہندوستان کے حق میں الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ یہ مشن ناکام ہوا لیکن مہاراجہ نے کانگریس پارٹی کے زیر اثر 1947 ء کے موسم بہار میں پونچھ کے علاقے میں مسلم آبادی پر منظم ظلم و ستم کو تیز کر دیا۔ آر ایس ایس کے ارکان کی دراندازی کے ساتھ مسلم مخالف مہم میں شدت آنے لگی۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جون 1947 ء میں کشمیر کا دورہ بھی کیا، اس کے بعد گاندھی بھی دورہ کشمیر پر پہنچنے تاکہ مقامی حکمران کی سوچ کو متاثرکیا جائے، اور مہاراجہ، ان کے وزیر اعظم اور نیشنل کانفرنس کے کارکنوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ مہاراجہ کو نہ صرف ہندوستان میں شمولیت بلکہ کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت رام چندر کاک کو ہٹانے کے لیے بھی دبائو ڈالا جاسکے، جو ایک ہندو تھے اور چاہتے تھے کہ ریاست ایک آزاد حیثیت کا انتخاب کرے۔
اگست کے آخر اور ستمبر 1947ء کے آغاز میں، کشمیر میں آزاد افواج کے بہت سے نمائندے قبائلی فیکٹریوں سے اسلحہ خریدنے کے لیے شمال مغربی سرحدی صوبہ، موجودہ خیبرپختونخوا گئے۔ اس وقت مہاراجہ کا جموں و کشمیر کے لوگوں پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ وادی میں مکمل بغاوت ہوچکی تھی۔ ڈوگرہ کی بربریت کی کہانیوں نے ان قبائل کو جگایا جنہوں نے مقدس جنگ کا اعلان کیا اور تقریباً 2000 قبائلی جن میں زیادہ تر محسود اور آفریدی تھے 19 اکتوبر 1947 ء کو کشمیر میں جہاد کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
مہاراجہ نے گھبرا کر ہندوستان سے مدد طلب کی جس نے مدد کو الحاق کی دستاویز پر دستخط سے جوڑ دیا۔ 26 اکتوبر 1947 ء کو مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ تعطل کا شکار ہونے والے معاہدے کے باوجود ہندوستان سے الحاق کیا اور ہندوستانی گورنر جنرل کو الحاق کا خط بھیجا اس طرح کشمیر کے المیہ کا بیج بویا گیا جو 75 سال گزر جانے کے باوجود بھی برقرار ہے۔
بی جے پی کے دور حکومت میں گجرات کا قصاب مودی کشمیری ثقافت اور شناخت پر حملہ جاری رکھے ہوئے ہے اور بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر پر اپنا ہندوتوا نظریہ نافذ کررہا ہے۔ 370 اے کی منسوخی اور ریاست جموں و کشمیر میں ڈومیسائل قانون کا نفاذ بی جے پی کی وادی میں مسلم آبادی کو کچلنے اور محکوم بنانے کی کوششیں ہیں۔
ناانصافی کبھی لازوال نہیں ہوتی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی طرف سے کشمیریوں سے وعدہ کردہ آزادی اور حق خودارادیت کی صبح کو غیر معینہ مدت تک موخر نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان گزشتہ 75 سالوں سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا آیا ہے اور ان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم، ہمیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کے گرد موجود ابہام کی دھند کو دور کرنے اور دستاویزی شکل میں قومی اتفاق رائے کے ساتھ واضح پالیسی کی سمت رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وضاحت خود بخود بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات پر واضح اور سیاسی اتفاق رائے سے نکلے گی۔ اس حقیقت کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ کبھی بھی کوئی فوجی حل نہیں ہو گا کیونکہ اس کے انسانی نقصان اور بین الاقوامی ردعمل اور پابندیوں دونوں کے لحاظ سے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
دنیا اور ہمارا خطہ جیو اسٹریٹجک اور جیو اکنامک تبدیلیوں اور تنظیم نو دونوں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ ہماری داخلی سیاسی اور معاشی صورتحال بھی ابتری کا شکار ہے اور اس وقت کسی فوجی تصادم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر ہم بین الاقوامی اور علاقائی محاذ پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی اور سفارت کاری موثر ہو اور عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے اور ہمارے خدشات اور ہمارے بیانیے کو مدنظر رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہو، تو ہمیں اقتصادی بحالی، سماجی ترقی اور پرامن بیرونی ماحول پر یک جہتی سے توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
میری عاجزانہ رائے میں، جب کہ ہمیں دنیا اور بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں مسئلہ کشمیر کو محور بنانا چاہیے اور اسے آگے رکھنا چاہیے، مسئلہ کشمیر کو ہر دستیاب فورم پر اٹھانے کا رجحان غیر نتیجہ خیز، بار بار اور بے اثر ہوتا جا رہا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ اس پر نظرثانی اور درستی کی جائے۔ مسئلہ کشمیر کو تمام متعلقہ اداروں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں، رہنماؤں اور سفارت کاروں کی جانب سے درست فورمز پر اور غیر مبہم اور متفقہ پیغام کے ساتھ زبردستی اٹھایا جانا چاہیے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قراردادوں پر پوری توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے پرانا مسئلہ صرف سلامتی کونسل میں حل کیا جائے گا، بھارت کی طرف سے یکطرفہ طور پر نہیں۔
صحافیوں، ڈاکٹروں، ماہرین تعلیم، سیاست دانوں، خواتین وغیرہ کی حالت زار کو انسانی حقوق کے فورمز پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مودی انتظامیہ کی زبردستی مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں سے متعلق، آگاہی پیدا کرنے کے لیے، سیاسی اور آئینی تبدیلیوں کو مؤثر طریقے سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر بیرون ملک مقیم مقبوضہ جموں و کشمیر کے کشمیری تارکین وطن سے قریبی رابطہ کاری اور انہیں متحرک کرنا ضروری ہے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وعدوں کی پاسداری کرے۔
ملکی محاذ پر، ہمیں آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کا ادراک ہونا چاہیے اور ہر لحاظ سے آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کی مایوسی اور ناامیدی کو مؤثر طریقے سے دور کرنا چاہیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کشمیر کا معاملہ بھارت کے ساتھ تعلقات سے الگ ہونا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بے شمار سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں اور تین بار جنگ ہو چکی ہے جن میں سے دو بار کشمیر کے مسئلے پر ہوئی، لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے اور معصوم کشمیری اپنے حق خودارادیت کے حصول اور بھارتی قبضے اور جارحیت سے آزادی کے لیے خون کی ناقابلِ تصور قیمت ادا کر رہے ہیں۔ کشمیری مصائب کا شکار ہیں اور متعلقہ فریق ہیں اس لیے پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے یہ یقین کرنا بعید ازقیاس ہوگا کہ مستقبل کی کوئی بھی کوشش جس کا مقصد انتہائی مطلوبہ حل حاصل کرنا ہے کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر کامیاب ہوسکتی ہے۔