عمران خان کی جدّوجہد اور تضادات
اگر انتخابات میں سازباز نہ کی گئی تو مُنقسم آبادی پارلیمان میں مُنقسم اکثریت ہی بھیجے گی
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں
محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟ ۔۔۔ جووینل
’’سول عسکری چیلنج یہ ہے کہ ایک اتنی مضبوط فوج سے جو سول حکومت کے کہنے پر کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتی ہو، ایسے فوجی ماتحت کے ساتھ جو وہی کرے جس کا اختیار سول حکومت نے دیا ہو، دوستانہ تعلّق بحال رکھنا ہے‘‘۔ (پیٹر ڈی فیور)
گزشتہ ہفتے میں نے سوال پوچھا تھا کہ اِس ملک کی سیاست میں بنیادی تضاد کہاں ہے؟ میرا حوالہ وہ تصوّر تھا جو چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ نے اپنے 1937ء کے مضمون، On Contradiction میں پیش کیا تھا۔
اِس کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے فوج کے بارے میں خاص طور پر ایک قومی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا ہے۔ میں اِس انٹرویو کے چند اہم نکات پیش کرتا ہوں۔
’’فوج طاقتور اور مُنظّم ہے، اور میرا خیال تھا کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور ایک اہم کردار ادا کرنے میں میری مدد کرے گی‘‘۔
’’نیب (قومی احتساب بیورو) فوج کے زیرِ اثر تھا۔ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا، مجھے معلوم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نیب کو چلاتی ہے اور وہ جس طرح چاہتی ہے نیب کام کرتا ہے، نیب کسی کو پکڑتا ہے، مگر پھر وہ ضمانت پر باہر آجاتا ہے‘‘۔
’’آرمی چیف چاہتے تھے کہ میں علیم خان کو (وزیراعلیٰ پنجاب) بناؤں اور میں یہ نہیں چاہتا تھا” کیونکہ “اُن کے خلاف نیب کے مقدمات تھے (اور) انہوں نے حکومت کی کروڑوں مالیت کی زمینوں پر قبضہ اور اِنہیں فروخت کیا تھا‘‘۔
’’وہ (فوج) منظّم تھی، آپ اُن کی مدد لے سکتے تھے، ہم خارجہ پالیسی کے حوالے سے مُتفق تھے۔ آخری چھ ماہ میں ہی اُن کا اِن بدمعاشوں (حزبِ اختلاف، اب حکومتی اتحاد) سے معاہدہ ہوا جبکہ اِنہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا‘‘۔
’’ہمارے پاس اختیارات نہیں تھے۔ اس بار اگر میں (دوبارہ اقتدار میں آیا)، تو میں تب تک حکومت نہیں لوں گا جب تک میرے پاس اکثریت نہ ہو اور میں کوئی اہم اقدام نہ کر سکوں۔ اگر آپ اتّحادی حکومت میں ہیں، ایک کمزور اکثریت میں، اور آپ کو اپنے ہی لوگ بلیک میل کر رہے ہیں تو (حکومت کرنا) ناممکن ہے۔ اُس وقت فوج کا کردار زیادہ نمایاں ہو گیا تھا کیونکہ ہمیں اُن کی مدد کی ضرورت تھی اور ہم اِسی مقصد کے لیے مل کر کام کر رہے تھے‘‘۔
’’وہ (فوج) اتنے برسوں سے اقتدار میں ہے، لیکن اِس میں توازن کی ضرورت ہے۔ یہ سوچنا کہ فوج کو سیاست سے باہر کر دیا جائے گا ممکن نہیں۔ اُس کی تعمیری طاقت کا استعمال اِس ملک کو ادارہ جاتی تباہی سے نکال سکتا ہے‘‘۔
آئیے! اب اِن نکات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرے پاس اس بارے میں کوئی آزادانہ معلومات نہیں کہ کیا آرمی چیف علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا چاہتے تھے۔ البتّہ مجھے متعدد ذرائع سے یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ فوج عمران خان کے انتخاب یعنی عثمان بزدار سے ناخوش تھی۔ تاہم یہ معاہدہ توڑنے والی بات نہیں تھی (ورنہ یہ بہت پہلے ٹوٹ جاتا)۔
کسی بھی طرح یہ وہ مسئلہ نہیں جس میں مجھے دلچسپی ہے۔ میری دلچسپی، جیسا کہ چیزیں سامنے آئی ہیں، عمران خان کے فوج کے بارے میں نقطہء نظر اور اُنہیں اِس ادارے سے معاملات کس طرح رکھنے چاہئیں سے ہے۔
عدم اعتماد کے ووٹ میں اُن کی برطرفی کے بعد سے وہ اور اُن کے حامی یہ دلیل دیتے ہوئے کہ جبکہ فوج پاکستان اور اس کے دفاع کے لیے ضروری ہے، چند جرنیلوں خصوصاً موجودہ آرمی چیف کو عوامی انقلاب کو پٹڑی سے اُتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، فوج پر مُسلسل اور لگاتار تنقید کرتے آئے ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ فوج غیرجانبدار نہ ہو اور اُن کا ساتھ دے (کیونکہ یہ ایک معقول مقصد ہے)۔
یہ دو جہتی حکمتِ عملی سابق فوجیوں کی بڑی تعداد کی جانب سے عمران خان کی حمایت اور مسلم لیگ (ن) کے حکمراں خاندان کے لیے خدمات انجام دینے والوں کے درمیان شدید نفرت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، وہ فوج کو مُنظّم اور نظم و ضبط کا پابند جانتے اور سمجھتے تھے۔ جیسا کہ یہ بھی واضح ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج طویل عرصے سے اقتدار میں ہے اور اسے سیاست سے بے دخل کرنا ممکن نہیں۔ تاہم ایک توازن ہونا ضروری ہے۔ وہ تسلیم کر رہے ہیں، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اُنہوں نے جس حکومت کی قیادت کی وہ ایک مخلوط حکومت تھی اور اپنے خاتمے تک یہ دونوں اطراف کے لیے درست طور پر کام کر رہی تھی۔
اُن کا یہ کہنا کہ وہ اقتدار کی تقسیم کے حوالے سے بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اُن کے لیے تشکیل دیا گیا اتّحاد اُن کے لیے ایک رکاوٹ تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اُس وقت تک حکومت نہیں بنائیں گے جب تک کہ اُن کے پاس واضح اکثریت نہ ہو۔ اُن کا یہ بھی ماننا ہے، جیسا کہ اُن کے اوپر دیے گئے اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے، کہ اُنہیں فوج کی ضرورت تھی کیونکہ اُن کے سیاسی حلیفوں نے ہی اُن کی کارکردگی کو محدود کر رکھا تھا۔ ایک طرح سے یہ فوج کا ہی ایک حوالہ ہے، اُن کا خیال تھا کہ فوج اِس نظام کو صاف کرنے میں مدد کرے گی۔ ایسا نہیں ہوا کیونکہ، جیسا کہ وہ الزام لگاتے ہیں، فوج نے نیب کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا اور وہ سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کو اُنہی سے جوڑ توڑ اور سیاست کے لیے استعمال کرتی تھی۔
یہ عمران خان کی سوچ میں دو متضاد پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک طرف اُنہوں نے سمجھوتہ کرنے پر واضح ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔ دوسری طرف وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار کی ساختی حدود و قیود کے پیشِ نظر اُنہیں فوج کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس پر میں نے گزشتہ ہفتے کے مضمون میں روشنی ڈالی تھی، کیا بنیادی تضاد پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان ہے یا یہ مختلف سیاست دانوں اور غالب فوج کے درمیان ہے؟
اِس سے جو کچھ ہم دیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ دیگر سیاسی رہنماؤں کے مقابلے میں عمران خان اب بھی فوج سے معاہدہ کرنے کے لیے زیادہ موزوں نظر آتے ہیں (مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کے خلاف اُن کی تنقید کے باوجود)۔ یہ ستم ظریفی بھی ہے اور گہری خامی بھی۔ ایسا کیوں ہے۔ اگر فوج واقعی نظام میں سازباز کرتی ہے تو یہ تقریباً ناگزیر ہے کہ وہ ایسا کرتی رہے گی۔ مزید برآں، حالات کے حساب سے فوج ایک سیاسی چہرے کو دوسرے سے تبدیل کر سکتی ہے، اور کرے گی۔ مثال کے طور پر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہی کو دیکھ لیں۔
نتیجہ: اگر عمران خان دیگر سیاستدانوں سے بات چیت کی گنجائش نہیں نکالتے، جنہوں نے ماضی میں مختلف اوقات میں عمران خان ہی کی جیسے حالات کا سامنا کیا ہے، تو اُنہوں نے اپنی تمام موجودہ جدوجہد کے لیے بنیادی تضاد کی غلط نشاندہی کی ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو اُنہیں، اگر اور جب کبھی وہ اقتدار میں آئے، اِنہی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو پچھلی بار اُن کی حکومت کی راہ میں حائل ہوئی تھیں۔
عمران خان کی نہ صرف فوج بلکہ دیگر سیاستدانوں کے حوالے سے بھی بلا روک ٹوک اقتدار کی خواہش ایک اور مسئلہ ہے۔ وہ ایک روند ڈالنے والی اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اتّحادیوں کی فکر کیے بغیر جو چاہیں کر سکیں۔ یہ قابلِ فہم تو ہے لیکن اگر ہم دلیل دینے کے لیے فوج کو ہٹا کر سیاسی اقتدار کی جدوجہد کو خالصتاً سیاستدانوں کے درمیان مقابلہ سمجھیں تو بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
امریکی وسط مدّتی انتخابات نے امریکا میں تقسیم کو عیاں کر دیا ہے۔ برطانیہ بھی مُنقسم ہے، جیسا کہ فرانس ہے۔ جرمنی کے لیے متبادل دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی بنڈسٹاگ میں سب سے بڑی حزبِ مخالف ہے۔ چانسلر اولاف شولز مخلوط حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسپین میں انتہائی دائیں بازو کی ووکس پارٹی کستیا ای لیون (Castilla y León) میں اتّحادی علاقائی حکومت میں شامل ہوئی ہے۔ تقریباً تمام یورپی ممالک میں مخلوط حکومتیں ہیں اور مزید گنتی بھی کی جا سکتی ہے۔
ہاں، اتّحادی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ تاہم اگر اِس وقت روس میں کوئی اتّحادی حکومت ہوتی تو اُس کی جانب سے غالباً یوکرین پر حملہ نہ ہوتا۔ طاقتوروں پر پابندیوں کی کمی ایک نعمت یا لعنت ہو سکتی ہے، یہ طاقتور پر مُنحصر ہے۔ تاہم حتّٰی کہ اگر وہ کم جونگ اُن یا ولادیمیر پیوٹن نہیں بلکہ لی کوان یو ہوں، تب بھی عوام کو خوشحالی اور بعض آزادیوں کے درمیان کسی سمجھوتے کو قبول کرنا پڑے گا۔
عمران خان مقبول ہیں اور اپنی برطرفی کے بعد سے لگتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے مقصد کے لیے زیادہ حمایتی جمع کر لیے ہیں۔ وہ اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں جو کہ جائز ہے۔ تاہم اُنہیں اپنے انتخاب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، نہ صرف فوج اور دیگر سیاستدانوں کے حوالے سے، بلکہ ایک بڑی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش کے حوالے سے بھی۔ رائے شماری کے طریقِ کار محض اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ رائے دہندگان کس کے ساتھ ہیں۔ اگر انتخابات میں سازباز نہ کی گئی تو مُنقسم آبادی پارلیمان میں مُنقسم اکثریت ہی بھیجے گی۔
سبق: سیاست، زیادہ تر کے لیے، مُتضاد اور اکثر مُتضاد مفادات کو جمع کرنے کا نام ہے۔