آصف درانی

27th Nov, 2022. 09:00 am

محاذ  آرائی  پر مبنی خطرناک  سیاست

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

پی ڈی ایم کو اس حماقت کا احساس جلد  ہو گا کہ اس نے سابق  وزیر اعظم  عمران خان کو  اقتدار  سے الگ  کرکے ملک کو دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔عام آدمی کے لیے سیاسی قوتوں کے درمیان تصادم ملک کی توانائیوں کو  مسلسل ضائع کر رہا ہے۔اگرچہ تمام   سروے عمران خان کی روایتی  سیاست کے زوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس نے صرف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ملک کو نقصان پہنچایا تھا۔تجزیہ کاروں کے مطابق پی ڈی ایم یہاں پر بھروسہ کرکے غلطی  کر گئی ۔تاہم، اقتدار کی ہوس نے سیاسی   رہنماؤں کو    سیاست کے بنیادی اسباق سے  بالکل  بے خبر کردیا  ہے کہ جمہوری  ادارے کو خاندانی اجارہ داری یا عارضی فوائد کی بجائے ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ آنے والا انتشار ان اداروں کو بدنام کر رہا ہے جو ریاست کو  محفوظ سہارے  فراہم کرنے والے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ ملک کس سمت جا رہا ہے ؟اور نہ ہی ملک کی سیاسی قوتوں میں  وہ صلاحیت موجود  ہے کہ  حالات  کو  مسائل سے باہر  نکالا جاسکے۔ لہٰذا، ملک میں غیر یقینی کی صورتحال  اب مزید بڑھتی  جارہی ہے۔ اگر موجودہ صورتحال اسی طرح  رواں دواں رہی اور اقتدار کی خواہش رکھنے والے اپنی محاذ آرائی  میں مصروف رہے تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سخت قدم لازمی اٹھا لیا جائے گا۔

اسے نادانی کہیں یا کچی سیاست، چیف آف آرمی سٹاف کا انتخاب مرکزی کرداروں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔سیاسی اشرافیہ نڈر ہو رہے ہیں ،یہاں تک کہ اس ادارے کو بھی گھسیٹا جارہا  ہے  جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قابل مذمت اور جمہوری نظام کی طاقت  کی بڑی وجہ ہے۔وزیر اعظم  شہباز شریف ہو  ،  جن کا کنٹرول  لندن میں ان کے   بھائی  کے پاس ہے ، یا پھر سابق  وزیر  اعظم  عمران خان ، جو کھلم کھلا اپنی پسند کے چیف آف آرمی  اسٹاف  کی  تعیناتی کا مطالبہ کر رہے ہیں، دونوں یا تو    انتہائی نادان ہیں یا  پھر وہ فوج کو بطور ادارہ سمجھنے سے قاصر ہیں،جس نے گزشتہ7 دہائیوں کے دوران اپنی ادارہ جاتی خود مختاری کو برقرار رکھا ہوا  ہے اور سیاسی مالکان کواپنے  معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت  ہرگز نہیں دے گا۔بھٹو ؤں اور شریفوں سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ  چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر ان کے ہاتھوں چنے  گئے جرنیلوں نے حکمرانی کے ان کے خیال سے تصادم کے ایجنڈے پر عمل کیا۔

Advertisement

اگر  سیاست دان ملک پر حکمرانی کو اپنا خدائی حق سمجھتے ہیں تو یہ تصادم ضرور ہو گا۔ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس قابل نہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات پر فوجی اور سول اداروں کا مقابلہ کر سکے۔اتنا  ماہر کوئی بھی نہیں  جو گورننس اور قومی سلامتی کے مسائل پر سیاسی جماعتوں کو  سمجھا  سکےاور نہ ہی سیاسی قیادت کبھی قومی اہمیت کے معاملات پر موجودہ تھنک ٹینکس سے مشورہ کرنے کی زحمت گوارا کرتی ہے۔

پارلیمنٹ میں چلنے والے کمیٹی سسٹم میں تلخ سوالات اٹھانے کی اہلیت  کسی میں بھی نہیں کیونکہ وہ  اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناگوار ثابت  ہو سکتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ نہ صرف کسی خاص دفاعی خرید و فروخت پر سوال اٹھانے کے قابل نہیں ہیں بلکہ انہیں اپنے مستقبل کے سیاسی امکانات کے لیے بھی برا شگون سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرح ملک کی خارجہ پالیسی ہمارے سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یا  پھر  وہ کسی خاص خارجہ پالیسی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی اہلیت یا ہمت نہیں رکھتے ۔

کم و بیش  یہی حال سول بیوروکریسی کا بھی ہے جو کئی دہائیوں سے اپنے  وقار  سے محروم  ہے۔سیاسی آقاؤں نے سول بیوروکریٹس کو اپنے گھر کا ملازم  بنا رکھا ہے۔نتیجے کے طور پر سول بیوروکریسی میں بہترین لوگ  بعض شرمناک سرگرمیوں میں ملوث نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ وہ قانون کی حکمرانی اوراس کی سالمیت کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں  آتے ۔آپ ایک مختصر  سے سروے  کے دوران  سوال  کریں کہ لاہور میں گریڈ 22 کے کتنے افسران ،حکمران خاندانوں کی خدمت کے لیے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں؟اور جب بیوروکریسی کی بات آتی ہے تو لاہور  کو طاقتوروں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے  ، جبکہ باقی ملک  کسی دوسرے ماتحت کے تحت  چلتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر جمہوریت کے چیمپئن اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر بلاتعطل حکمرانی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ان کا سب سے بڑا مطالبہ 5 سالہ دور کی سیکیورٹی (تحفظ)ہے، کیونکہ وہ اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر چکے ہیں۔

تاہم  یہ انتہائی جمہوریت پسند بیوروکریٹ کو اپنا کام کرنے کے لیے محفوظ مدت ملازمت دینے سے  گریزاں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست بنیادی سطح پر زوال پذیر ہے۔ جب اقتدار کی کشمکش میں الجھ جاتے ہیں تو حکومت اور اپوزیشن کے پاس اپنے مسائل کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کی مہارت، صلاحیت یا ارادے کی کمی ہوتی ہے۔حکومت اپوزیشن کو تسلیم کرنے کے لیے ریاست کے زبردستی بازو کا استعمال کرتی ہے، جب کہ حزب اختلاف موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتی ہے۔در اصل اسٹیبلشمنٹ کو طاقت کے دلال کا کردار ادا کرنے اور سیاسی اداکاروں کو ان کی ہدایت کے مطابق کارکردگی دکھانے میں بہت خوشی  محسوس ہوگی۔

Advertisement

ملک میں جاری اقتدار کی رسہ کشی  کے  مجموعی اثرات کے طور پر   ملک کے ادارے جمود کا شکار ہوگئے ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جاری کشمکش سے مستفید ہوتی رہے گی وہ ایسی صورتحال میں طاقت کے  استعمال کے طریقوں سے سے بے خبر ہیں۔ اس گرما گرم ماحول میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی مجموعی کارکردگی منفی طور پر متاثر ہوتی جارہی ہے۔کمزور معیشت کا مطلب  یہ ہے کہ عوامی سطح پر اداروں اور  عوام میں  پائی  جانے والی بے چینی کو  تقویت دی جائے ۔

 سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک میں ،  بیرونی تعلقات میں احترام کی کمی اور  اعتبار کا فقدان واضح طور پر  نظر آرہا ہے۔چونکہ ملک میں سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے قابل اعتبار طریقہ کار  موجود نہیں ہے  ،اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی شمولیت ضروری  ہو جاتی ہے۔یہ کہناا بھی غلط نہ ہوگا کہ دوسری طرف   میوزیکل چیئرز کا کھیل جاری ہے۔

ملک کی سیاست  کو ،  سیاست دانوں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے  جمع کی جانے والی قابل یقین دولت جیسے صورتحال کا بھی سامنے ہے۔اگر کسی  دولت مند سیاست دان نے منصفانہ ذرائع سے  دولت کمائی ہے  تو اس پر کسی کو   ہر گز اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔لیکن  کئی دہائیوں کے دوران، ملکی وسائل پر اشرافیہ کےواضح قبضے نے عام آدمی کو بہت  بے بس اور بے اختیار ہونے   پر مجبور کردیا  ہے۔

ضیاء الحق کے دور حکومت میں ملک کو   کلاشنکوف اور پجیرو کلچر سے متعارف کرایا گیا۔آج کل یاسی جلسوں کے دوران تمام برانڈز کی اسپورٹس یوٹیلیٹی گاڑیوں کو دیکھ لیں جو کہ دولت کی کھلی  نمائش کے سوا کچھ نہیں، اور  اس پر کوئی سوال بھی نہیں اٹھاتا۔

کیا یہ ایک ظالمانہ مذاق نہیں  کہ یہ بدعنوان  امیر ، ملک کے غریب ترین طبقے    کو مزید  غربت کی جانب دھکیل کر   خود کو  طاقتور  سمجھ رہے ہیں ؟اگر وہ تھوڑے سے بھی ایماندار  ہوتے تو وہ اپنی دولت  اور جائیدادوں کا کچھ حصہ جاتی امرا یا بنی گالہ میں سیلاب زدگان  میں تقسیم کردیتے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک کی قیادت اپنے مفادات کو فروغ دینے، دولت جمع کرنے اور مغربی ممالک  میں پرتعیش زندگی بسر کرنے کے لیے رئیل اسٹیٹ اور شوگر مافیاز کے ساتھ  مل کر  کام  کرنے میں  مگن  ہے۔ اس بات کی کس کو پروا  ہے کہ ان کی ضرورت سے زائد جائداد، لاکھوں  افراد کی  زندگی  بدل سکتی ہے۔

Advertisement

Next OPED