ڈاکٹر حسن شہزاد

25th Sep, 2022. 09:00 am

چین رُوس اتّحاد کا مُستقبل

صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورِ حکومت میں روس خود کو ایک انوکھے انداز میں الگ تھلگ کرنے میں کامیاب ہوا ہے، یورپ بھی روس کو قبول کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ کیسپین ریاستوں یعنی آذربائیجان، ایران، قازقستان، روس اور ترکمانستان نے بھی یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کڑوی گولی نِگلی کہ وہ روس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

حال ہی میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے “فارن افیئرز” کے لیے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “کیسپین – ہمسائیگی کا ایک منفرد خطہ”۔ یہ تحریر ایک بوڑھے باپ کی اپنے گمراہ بیٹوں کو گھر واپس لانے کے لیے دردناک دعاؤں سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے لکھا کہ “روسی فیڈریشن کے لیے کیسپین خطے کی اہمیت کا تعین یوریشیا کے مرکز میں اس کے تزویراتی مقام سے ہوتا ہے۔” لاوروف نے “پائیدار ترقی” اور”اعتماد و تعاون” جیسی کچھ امریکی اصطلاحات مستعار لیں تاکہ اپنے پڑوسیوں سے اپیل کی جائے کہ وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہوں اور امن و خوشحالی کے لیے کام کریں۔ “ہم سمجھتے ہیں کہ کیسپین کے تمام مسائل کو پانچ ساحلی ریاستوں کے اتفاق رائے سے ہی حل کیا جانا چاہیے۔ غیر علاقائی قوتوں کو منفی اثر و رسوخ کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔”

اگرچہ ایران اور روس کے علاوہ تینوں ممالک کی بنیاد 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد رکھی گئی تھی تاہم روسی وزیر خارجہ کا خیال تھا کہ اِنہیں 1992ء میں اپنے قیام کے مہینوں بعد تہران میں ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں “کیسپین انٹر اسٹیٹ آئل کمپنی اور کیسپین انٹر اسٹیٹ بینک آف اکنامک کوآپریشن” کے قیام کے لیے کام کرنے کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے تھا۔

لاوروف یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ وہ زمانہ مختلف تھا۔ یہ قومیں اپنی ماضی کی حدود سے آزاد ہو چکی ہیں۔ مثلاً ایران آذربائیجان کو حکم دینے کے قریب ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کیسے استعمال کرے اور اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ نہ بنائے۔ قازقستان اب یورپ کا حصہ بننے کے لیے قطار میں کھڑا ہے جس کی 40 فیصد بیرونی تجارت یورپی یونین (EU) سے ہوتی ہے۔

لاوروف کی طرح روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی ماضی کے حوالے بیان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک مغربی یا مشرقی چرب زبان رہنما کی طرح اُن کی عوامی تقاریر بھی لمبی اور پُرجذبات ہوتی ہیں۔ پیوٹن جس روسی دبدبے کا حوالہ دیتے ہیں وہ ماضی کی بات ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن گاڑی میں نصب شیشے میں پیچھے کی جانب دیکھتے ہوئے روس کو آگے لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Advertisement

بہرحال چین اب بھی روس سے اتّحاد بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ اِس سال فروری میں سرمائی کھیلوں کے دوران صدر پیوٹن کی میزبانی میں کافی محتاط تھے۔ اگرچہ امریکا اور اتحادیوں کی جانب سے اِن کھیلوں کا بائیکاٹ کیا گیا تھا لیکن ان کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ صدر شی اور صدر پیوٹن دونوں نے بین الاقوامی میڈیا کو اپنی مضبوط دوستی کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے بیانات جاری کیے۔ صدر پیوٹن نے بحر ہند میں امریکی مداخلت کی مذمت میں ایک لفظ نہیں کہا تاہم انہوں نے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا (AUKUS) کے درمیان بننے والے اتحاد کو ناپسند کیا جس کا مقصد خطے میں چین کو دھمکانا تھا۔ لاوروف نے بھی دونوں صدور کے درمیان ملاقات کے سلسلے میں اپنے چینی ہم منصب اور دیگر سے ملاقاتیں کیں۔

اس کے فوراً بعد صدر پیوٹن نے ایک نئی پائپ لائن کے ذریعے چین کو گیس کی برآمدات میں سالانہ 48 بلین کیوبک میٹر تک اضافے کی تجویز پیش کی جو اس کے مشرقِ بعید خطے سے سالانہ 10 بلین کیوبک میٹر گیس فراہم کرے گی۔ صدر پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ وہ دونوں سُپر طاقتوں کے درمیان تجارت کو 200 بلین ڈالر تک بڑھانا چاہتے ہیں جو 2021ء میں 140 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

اس ملاقات کے بمشکل چھ ماہ بعد صدر شی جن پنگ اُزبکستان کے شہر سمرقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں شرکت کے لیے کورونا وبا کے بعد پہلی بار ملک سے باہر آئے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ “چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20 ویں قومی کانگریس کے موقع پر یہ چینی سربراہِ مملکت کی سفارت کاری کا سب سے اہم موقع تھا۔” اپنی اہم تقریر میں صدر شی نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (بی آر آئی) کو کامیاب بنانے کے لیے چین کی تمام شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز) کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایس سی او ممالک کے مابین ثقافتی تنوع کے بارے میں بھی بات کی جو دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تنظیم کی نمائندگی کرتی ہے۔

روس کے حوالے سے چینی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ پیوٹن شی کی قیادت میں چین کی ترقی کے لیے کتنے پُرجوش ہیں۔ “دونوں ممالک نے بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اُصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی سطح پر قریبی ہم آہنگی برقرار رکھی ہے۔ دنیا میں عصرِ حاضر اور تاریخی تبدیلیوں کے تناظر میں چین روس کے ساتھ مل کر “بڑے ممالک کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے کام کرے گا اور تبدیلی و انتشار کی دنیا میں استحکام پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔”

اگرچہ بیان میں یوکرین کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے تاہم صدر پیوٹن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ یوکرین کے بارے میں صدر شی کے “تحفظات” کو سمجھ چکے ہیں۔ بیان میں تائیوان اور اس کی آزادی اور غیر ملکی مداخلت کی “مضبوط” مخالفت کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس لیے چین اور روس اپنے اتّحاد میں برابر کے شراکت دار نہیں ہیں۔ یہ روس ہے جو چین سے اپنے تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس تاثر کا مقابلہ کر سکے کہ وہ تنہا نہیں ہوا ہے۔

روس اور چین اور بھارت اور چین کے درمیان تجارتی حجم زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ روس یوکرین کی جنگ کو ختم کرے اور دنیا کو درپیش دیگر اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس پیش رفت کی پیروی کی اور واشنگٹن میں کہا، “میرے خیال میں آپ (صدر پیوٹن) چین سے، بھارت سے جو کچھ سن رہے ہیں، وہ یوکرین پر روسی جارحیت کے اثرات کے بارے میں عالمی خدشات کا عکاس ہے۔”

Advertisement

تاہم صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے چند دن بعد صدر پیوٹن نے بظاہر چینی مشورے کو کوڑے دان میں پھینک دیا اور 20 ستمبر کو ایک طویل عوامی خطاب کیا تاکہ روسی عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ عالمی طاقتیں اُن کے خلاف اتّحاد کر چکی ہیں اور اُنہیں اپنی شان و شوکت اور آزادی کی بحالی کے لیے ثابت قدم رہنا ہو گا۔

تائیوان نقشے پر چین کے سامنے ایک نقطے سے زیادہ نظر نہیں آتا تاہم چین اِس پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی جنگ شروع نہیں کر رہا ہے۔ جنگ آپ کو کمزور کر دیتی ہے۔ غیر مساوی اتّحادوں میں کمزور شراکت داروں کے لیے کچھ حاصل کرنے کی نسبت کھونے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ وہ صدر شی کے خدشات کو “سمجھ چکے ہیں” مگر اُن کے اقدامات کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہیں۔ اگر معاملات اسی طرح رہے تو یہ جلد ہی شیر اور بھیڑ کے درمیان اتّحاد کی مانند ہو جائے گا۔

مُصنّف بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (IIUI) میں ثالثی (mediatization) کے اُستاد ہیں۔

Advertisement

Next OPED