حمزہ حسین

26th Feb, 2023. 09:00 am

چین بیلجیئم تعلّقات کی مضبوطی

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

چین کے وزیر خارجہ چِن گینگ نے وزیر خارجہ اَجا لبیب سے بات چیت کرتے ہوئے بیلجیئم سے گہرے تعلقات کے لیے چین کی تیاری پر زور دیا۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ تعلقات کے فروغ اور تزویراتی شراکت داری کو غیر سیاسی طور پر استوار کرنا باہمی اور عالمی سطح پر فائدہ مند ثابت ہوگا۔

چین بیلجیئم تزویراتی شراکت داری کا فروغ فریقین کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہوگا۔ جیسا کہ چِن گینگ نے اَجا لبیب سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران کہا کہ چین دو طرفہ تعلقات کی وسیع تر ترقی کے لیے بیلجیئم کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ 1971ء سے شروع ہونے والے اور 1980ء کی دہائی میں نمایاں طور پر بڑھنے والے تعلقات کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے اگر دونوں ممالک سائنس و ٹیکنالوجی سے لے کر اختراع تک کے باہمی تعاون کے متفقہ شعبوں میں تعاون کریں۔ مضبوط تعلقات عالمی پیداوار اور فراہمیء رسد (سپلائی چین) کی دیکھ بھال کے ذریعے عالمی خوشحالی کا باعث بھی بنتے ہیں۔

تعلقات کو گہرا کرنے کی کلید غیر امتیازی انداز اپنانا اور موجودہ باہمی افہام و تفہیم اور اعتماد پر استوار کرنا ہے۔ فریقین کو چینی مارکیٹ میں اعلیٰ معیاری مصنوعات کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے کہ بیلجیئم چینی کمپنیوں کو کام کرنے کے لیے ایک منصفانہ اور شفاف کارپوریٹ ماحول کے ساتھ برابری کا میدان فراہم کرے۔ اِس سلسلے میں مضبوط تجارتی تعلقات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ 2022ء کے پہلے آٹھ ماہ میں اور کورونا وبا کے باوجود دو طرفہ تجارت 28.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی جو سال بہ سال 14.3 فیصد کے اضافے کے برابر ہے۔ اس تیز نمو کے باعث عالمی معیشت کی کورونا وبا کے بعد کی بحالی میں مستحکم عالمی اور صنعتی فراہمیء رسد (سپلائی چین) دیکھنے میں آئی۔

شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ دو طرفہ طور پر چین کے ساتھ غیر سیاسی تعاون سے بیلجیئم کی معیشت کو کس طرح فائدہ پہنچے گا۔ صرف زیبرگا (Zeebrugge) کے کنٹینر ٹرمینل پر چائنا اوشن شپنگ (گروپ) کمپنی جیسے منصوبوں سے 360 مقامی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور 2023ء میں مزید 100 ملازمتیں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ مشترکا کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی تعاون موجودہ پلیٹ فارمز ہیں جو وزراء، چیئرمین اور سائنسدانوں کے درمیان تعاون کے نئے ماڈل تلاش کرنے اور لائف سائنس، اسمارٹ اور پائیدار شہروں سے لے کر دیرپا ترقی کے اہداف کے حصول تک کلیدی شعبوں پر گہرائی سے بات چیت کے لیے باقاعدگی سے تبادلے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اہلکاروں کے تبادلے میں اضافہ جیسا کہ چینی وزیر خارجہ چِن گینگ نے اشارہ کیا ہے اس سے دونوں ممالک کو بہت فائدہ ہوگا۔

Advertisement

چین اور بیلجیئم کے دوطرفہ روابط میں دیکھے جانے والے اضافے سے بیلجیئن چینی چیمبر آف کامرس سے براہ راست فائدہ اٹھا رہے ہیں جو برسلز کی چین کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے معروف کاروباری انجمن ہے۔ 1980ء کی دہائی میں قائم کی گئی بی سی ای سی سی چین کی اوپن ڈور پالیسی سے منافع حاصل کرنا چاہتا ہے اور چین میں کام کرنے والی بیلجیئن اور یورپی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کے ذرائع تلاش کرتا ہے۔ ماحولیاتی ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بیلجیئم کی کمپنیوں کے لیے چین میں سرمایہ کاری کے نمایاں مواقع موجود ہیں اور ساتھ ہی کاربن کے اخراج پر چین کے مؤقف کو دیکھتے ہوئے جو 2060ء تک کاربن کے خاتمے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ توانائی کی مارکیٹ کی اصلاحات کرتے ہوئے ریاستی پالیسیاں شہروں کو مزید ماحول دوست بنانے کے لیے تیار ہوں۔ یہ ہدف بیلجیئم کی کمپنیوں سے مطابقت رکھتا ہے جو کلین ٹیک شعبے میں عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں تاکہ باہمی اور بامعنی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکیں جو ماحولیاتی اہداف حاصل کر سکتی ہیں۔

2023ء میں بیلجیم، چین اور ترقی پذیر دنیا کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹیو (بی آر آئی) کے ذریعے سہ فریقی مواقع بھی موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ بی آر آئی کامیاب رہا ہے۔ اوّلین مصروفیات کے طور پر سرمایہ کاری جو 2021ء میں 29 فیصد تھی 2022ء میں 48 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ مزید برآں بی آر آئی روٹ کے ساتھ ساتھ ممالک اور چین کے مابین 230 ارب ڈالر سے زائد کی دو طرفہ سرمایہ کاری کے ساتھ تجارت کا مجموعی حجم 11 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اسی طرح بی آر آئی کے تحت تعاون سے بیلجیئم کے کاروباروں کو لاجسٹک، سیاحت، ای کامرس، مالیاتی اور پیشہ ورانہ خدمات میں مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر بیلجیئم کے کاروباروں کے لیے تجارتی لاگت اور تجارتی نمو 10 فیصد سے تجاوز کر جائے گی جبکہ قریبی ممالک جیسے ہالینڈ میں ٹلبرگ، فرانس میں لیون اور جرمنی میں ڈوئسبرگ سے ٹرین کے روابط قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی مال بردار ریل گاڑیاں بیلجیئم کی کمپنیوں کو موزوں ترین لاجسٹک حل منتخب کرنے کی گنجائش فراہم کرتی ہیں۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ دو طرفہ تعلقات ترقی کی جانب مثبت رفتار کا مظاہرہ کیا جائے، حکمت اور دور اندیشی سے اختلافات کو نمٹانا بھی ضروری ہے۔ چینی وزیر خارجہ چِن گینگ نے اقتصادی و تجارتی مسائل کو سیاسی اور ہتھیار بنانے سے گریز کرنے کی بات کی جو دوطرفہ تعلقات کی ہموار ترقی کے لیے اہم ہے کیونکہ باہمی خدشات اور مفادات کو بات چیت اور غور و فکر کے ذریعے نمٹایا جانا چاہیے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بیلجیئم کی وزیر خارجہ اَجا لبیب نے کہا کہ بیلجیئم فراہمیء رسد (سپلائی چین) کو جوڑنے اور خطرے میں ڈالنے کے خلاف ہے اور اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ برسلز ’’ون چائنا (مُتحدہ چین)‘‘ پالیسی پر قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دو طرفہ تعلقات کے لیے دوطرفہ حکمتِ عملی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی اور صرف بین الاقوامی تجارت اور خوشحالی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ بیلجیئم اور چین کے درمیان پانچ دہائیوں قبل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے دوستی اور باہمی اعتماد تعلقات کی خصوصیات کا تعین کرتے رہے ہیں جس کی کلید اِس تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔

برسلز اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو کبھی کم نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور کرہء ارض کے سب سے براعظمی اتحاد کے مابین دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا ایک اہم محور ہے۔ اِس کے فوائد بہت زیادہ ہیں اور دونوں ممالک کے عوام کے لیے مُفید صورت حال ثابت ہو سکتی ہے جس کی دنیا بھر کے ممالک کو ضرورت ہے۔

یہ واضح ہے کہ چین اور بیلجیئم کے باہمی تعلقات کو فریقین کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے ٹھوس فوائد کے باعث آگے بڑھایا جانا چاہیے۔

Advertisement

Next OPED