حنان آر حسین

11th Sep, 2022. 09:00 am

افغانستان میں استحکام کے لیے علاقائی رفتار

یکطرفہ پابندیوں کے چنگل میں پھنسے افغانستان کی موجودہ معاشی بدحالی انسانی اور معاشی بحالی پر گہری توجہ کی مُتقاضی ہے

افغانستان میں استحکام، علاقائی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگُزیر ہے۔ یہ افغانستان کے بارے میں بیجنگ اور اسلام آباد کے اُصولی مؤقف کا اب تک کلیدی نتیجہ رہا ہے جس کا ہدف افغانستان کے اقتصادی رابطے کو آگے بڑھانا ہے، خصوصاً چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو افغانستان تک وسعت دے کر۔ فریقین کی طرف سے افغانستان کی معاشی بحالی کی تشویش بھی متعدد بار آواز بن کر اُبھرتی رہی ہے۔ خاص طور پر جب اسلام آباد اور بیجنگ دونوں ہی ناپسندیدہ نتائج سے واقف ہیں، اُنہوں نے مغربی استحکام کی آڑ میں افغانوں کے بتدریج بگڑتے حالات دیکھ رکھے ہیں، اور کابل کے بڑھتے انسانی بحران سے نمٹنے کی ضرورت کو بھی تسلیم کیا ہے جس نے لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔

یکطرفہ پابندیوں کے چنگل میں پھنسے افغانستان کی موجودہ معاشی بدحالی انسانی اور معاشی بحالی پر گہری توجہ کی مُتقاضی ہے۔ لاکھوں افغان عوام کا قحط کے دہانے پر ہونا اور اُن کے لیے امریکی فنڈز میں کمی، اپنے لوگوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ایک نازک جغرافیائی ملک کی صورتحال ہے۔ بیجنگ اور اسلام آباد دونوں ہی افغان قوم کی بحالی کی خاطر اقتصادی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مراعاتی مطالبے کی ایک عظیم کاوش کی قیادت کرتے ہیں، اور ایک پُرامن اور مُتحد افغانستان پر پاک چین اتفاقِ رائے اِس مُشکل موڑ پر ان ضروریات کا ترجمان ہے۔

چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ یی کی سی پیک کو افغانستان تک وسیع کرنے کی خصوصی تجویز اس رابطے کو آگے بڑھانے کی ایک واضح مثال ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت میں اربوں ڈالر کے اِس اہم منصوبے نے رفتار پکڑی ہے اور انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون کی مضبوط صلاحیت کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہے جو افغانستان کے لیے صنعتی، پیداواری اور تقسیم کاری (سپلائی چین) کے عمل میں دوطرفہ ہم آہنگی کو بڑھا سکتا ہے۔ کابل کے ساتھ روابط بھی اسلام آباد کا ایک بیانی مؤقف ہیں جن کا تعلق اس خطے میں مُتواتر جدوجہد اور تاریخی حوالوں سے ٹھوس امداد اور طویل مدتی بحالی کے امکانات کے لیے کابل کی مُشکلات سے ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے علاقائی اتفاقِ رائے کو باضابطہ صُورت دینے کے باعث ضرورت مند افغان آبادی کے لیے ٹھوس سماجی و اقتصادی فوائد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے منصوبے کو بھی کٹھن وقتوں کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ افغانستان سے تعلق کو فروغ دینے والے عامل کے طور پر بھی تقویت ملتی ہے۔

امریکی وعدوں خلافیوں کے ایک سال سے زائد عرصے بعد، افغانستان کی تعمیر نو مضبوط سفارتی اور اقتصادی ہم آہنگی کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ ماضی کی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ کابل میں استحکام کے لیے سائنو پاک (پاک چین سرحدی معاہدہ 1963ء) مشترکا ترغیبات نے افغانستان کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (BRI) میں شرکت، انفراسٹرکچر رابطوں کے ساتھ ساتھ طویل مدتی توانائی کے روابط کے لیے آمادگی حاصل کی ہے۔ افغانستان سے وسطی ایشیا تک وسیع تر منڈی کی رسائی مفید روابط کو بھی فروغ دے سکتی ہے جو علاقائی قیامِ امن کے لیے اہم ہیں۔ اس طرح کا راستہ افغانستان کو “ترقی کے مواقع” فراہم کرنے کے چین کے ہدف سے مطابقت رکھتا ہے، اور ساتھ ہی یہ پاکستان کے لیے بھی ایک کامیابی ہے کیونکہ اس کی افغانستان کے ساتھ غیر محفوظ سرحد ہے۔ یہ دیگر علاقائی فریقین کے مفاد میں ہے کہ وہ ترقیاتی حکمتِ عملیوں میں اس صف بندی کو فروغ دیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی ملک کے عوام بشمول افغانستان، اس کے بڑھتے انسانی بحران میں تنہائی کا شکار نہ ہوں۔

Advertisement

یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب کی طرف سے عائد یکطرفہ پابندیاں افغانستان کی بحالی کے امکانات کی راہ میں طویل عرصے سے حائل ہیں، جو ان اقدامات کے خلاف پاک چین حمایت کی نیک نیتی کو واضح کرتے ہیں۔ یہ عوامل سیلاب، وبائی مرض اور مہنگائی کے تین چیلنجوں کے متاثرہ ملک کی آبادی کی تنہائی میں اضافہ کرتے ہیں۔ محض یہ جان کر ہی کہ وعدہ شدہ اقتصادی امداد ظاہری طور پر کہیں نظر نہیں آتی، افغانستان جیسے کلیدی ہمسائے کے لیے انسانی امداد کو مخصوص کرنے کے مغربی دوہرے معیارات کو پاکستان اور چین کے لیے بھی بے نقاب کرتی ہے۔

پھر بھی مغرب کے برعکس، چین اور پاکستان افغانستان کے ساتھ جغرافیائی حقائق کا اشتراک کرتے ہیں جس سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ پائیدار سلامتی درحقیقت کیسی نظر آنی چاہیے۔ پابندیوں میں اثرات کو ختم کرنے کی بجائے اِن میں اضافے کے خطرات پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک نازک حالت کے تسلسل کا بھی خطرہ ہیں اور یہ واضح کرتی ہیں کہ امریکا اپنے پُرعُجلت انخلاء کے تناظر میں افغانستان کی اقتصادی تعمیر نو کی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہے۔

اس طرح علاقائی رابطوں کے فریم ورک میں افغانستان کی مضبوط تر یکجہتی اس بات کو یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہے کہ برصغیر میں علاقائی یگانگت کے فوائد یکساں طور پر تقسیم ہوں۔ مزید برآں، بحران زدہ افغان آبادی کے لیے پاکستان اور چین کی باآواز حمایت اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ عام افغانوں کا مُستقبل دو دہائیوں کی جنگ کے دوران دیکھے جانے والے حالات سے ملتا جُلتا نہ ہو۔

اِس سے یاد آتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس کے موقع پر چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی افغان طالبان کے مقررکردہ سربراہ خارجہ اُمور سے گفتگو اور ساتھ ہی پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے تبادلہ خیال میں باہمی یکجہتی کا ایسا ہی عزم پایا گیا تھا۔ اس بات کو واضح کیا گیا کہ ایک مُستحکم اور مُتحد افغانستان خطے میں “بڑھتی علاقائی تجارت اور روابط کی بنیاد” کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ یہی اجتماعی ترقی کا مقصد اور حقیقی علاقائی مُحرک ہے۔

مُختصراً، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (BRI) کے بین الاقوامی فوائد کو افغانستان تک وُسعت دینے پر زور ملک کی طویل عرصے سے نظرانداز شدہ ترقی میں مدد کا ایک نسخہ ہے اور یہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک ایسے نازک لمحے پر پہنچا ہے جو اپنی روزی روٹی کا حق تلاش کر رہے ہیں۔

پاکستان اور چین اُن تمام عوامل کے خلاف لڑتے نظر آتے ہیں جو مغرب نہ کر سکا۔ اِس میں افغانستان کو بطور مُتنازع علاقہ مُسلسل تنقید کا نشانہ بنانا، اتحادیوں کی مُسلسل مداخلت، اور انتہائی بحران میں امریکا کی جانب سے قانونی افغان اثاثوں کی چوری شامل ہیں۔ یہ سب اسلام آباد اور بیجنگ کے ایک ایسی قوم کے لیے جو کافی کچھ دیکھ چکی ہے، مخالفانہ مُضمرات کے خلاف دیرینہ اتفاقِ رائے کے برعکس ہے ۔

Advertisement

مُصنف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ  ایوارڈ یافتہ ہیں

Advertisement

Next OPED