پاک امریکا تعلقات کا معمہ
سارہ دانیال
واشنگٹن بدترین کے لیے تیاری کر سکتا ہے، بہترین کو مقصد بنا سکتا ہے اور ماضی کی غلطیوں سے پرہیز کر سکتا ہے۔
بارہا دہرائے گئے قومی بیانیے کے ساتھ جس کی خصوصیت اُس کا سیاسی حلقوں کی جانب سے ترک اور مسترد کر دیا جانا ہو، کوئی بھی حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ کیا پاکستانی حکومت کے امریکا کے ساتھ محبت و نفرت کے پیچیدہ دو قطبی تعلقات پاکستانی عوام کو ہمیشہ مایوس کرتے رہیں گے۔
پاک امریکا تعلقات ایک معمہ ہی بنے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے متوازی مفادات ہیں جو کبھی بھی کسی نکتے پر نہیں ملتے اور غیرمتوازن توقعات ہیں جو کسی نکتے پر توجہ مرکوز نہیں کرتیں ۔۔ مگر سلامتی کے۔ دوسری جنگِ عظیم اور سرد جنگ کے تاریک دنوں سے لے کر افغانستان سے امریکی افواج کے حالیہ انخلاء تک، بارہا دہرائے گئے قومی بیانیے کے ساتھ جس کی خصوصیت اُس کا سیاسی حلقوں کی جانب سے ترک اور مسترد کر دیا جانا ہو، کوئی بھی حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ کیا پاکستانی حکومت کے امریکا کے ساتھ محبت و نفرت کے پیچیدہ دو قطبی تعلقات پاکستانی عوام کو ہمیشہ مایوس کرتے رہیں گے۔
امریکی اور پاکستانی سفیروں، سفارت کاروں، بیوروکریٹس، فوجی اور انٹیلی جنس اہلکار، اور فکری و مشاورتی اداروں کے تجزیہ کاروں کے لیے، جو ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں، یہ گھر کے قریب مسلسل ہونے والے باہمی تباہی کے حملوں کا نقش ہے۔ مختلف وجوہات کی بناء پر پاکستان اندرونی افراتفری اور انتشار کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ دریں اثناء واشنگٹن اور اسلام آباد کے پاس مایوسی اور لاتعلقی کے سوا کچھ نہیں بچا۔ سُنی سُنی سی داستاں ۔۔ ہے نا؟ اس سے قبل جب پاکستان کے بارے میں امریکی اخبارات و میڈیا میں باقاعدگی سے سرخیاں لگتی تھیں، تعلقات تب بھی کشیدہ تھے۔ جیسا کہ ڈینیل مارکی کی کتاب، نو ایگزٹ فرام پاکستان: امریکاز ٹارچرڈ ریلیشن شپ وِد اسلام آباد، میں مُناسب طور پر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ ایسے گنہگار ہیں جنہوں نے اگرچہ کئی عشروں سے ایک دوسرے کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ تاہم دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ جب تعلقات کافی اچھے تھے، تب بھی بنیادی اختلافات موجود تھے جو مضبوط اور قابلِ عمل تعاون کی راہ میں رکاوٹ تھے۔
2009ء میں جب اوباما نے اقتدار سنبھالا تو بہت سی کتابیں شائع ہوئیں جن میں پاک امریکا تعلقات کی ناکامیوں، فریب اور خامیوں پر زور دیا گیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کتابیں، جیسے مارک مزیٹی کی The Way of the Knife: The CIA, a Secret Army, and a War at the ends of Earth، ولی نصر کی The Dispensable Nation: American Foreign Policy in Retreat، اور ڈیوڈ سینگر کی Confront and Conceal: Obama’s Secret Wars and Surprising Use of American Power انسداد دہشت گردی کی امریکی پالیسیوں اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مکمل توجہ کے ساتھ، امریکا اور پاکستان کے سیاسی کرداروں کی اندرونی تشریحات پیش کرتی ہیں جن کی وجہ سے تعلقات اِس نہج پر پہنچے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی عالمی قیادت سے متعلق پاکستان کے وجود میں آنے کے حالات اور وجوہات کو سمجھتے ہوئے، میں تمام پہلوؤں پر سوچتا ہوں جیسے سرد جنگ میں تعاون، پابندیاں، امریکی مخالفت، توانائی، تجارت، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بھارت، چین، جنرل مُشرف دور، آبادی، نوجوانوں کی ثقافت، افغانستان، اسامہ بن لادن پر حملہ وغیرہ۔
پاکستان کے سیاسی ماحول کی حالیہ صُورتحال دونوں ممالک کے سیاسی اور دیگر الگ الگ مفادات کے ساتھ ساتھ اُن حالات کی وضاحت کرتی ہے جس میں تعاون کی ضرورت تھی۔ 1947ء کے بعد سے امریکی پالیسی ساز پاکستان سے معاملات میں کامیابی سے زیادہ مایوسی کا شکار رہے ہیں۔ تنازعات بارہا گہری دشمنی اور تشدد کی صورت میں تبدیل ہوئے ہیں۔ باہمی مفاد کی درمیانی راہ نہ نکالنے کے لیے دونوں کو یکساں طور پر مؤرد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا ماضی ہنگامہ خیز رہا ہے جس میں بھارت سے متعلق مسائل پر واضح زور دیا گیا۔ اندرونی مسائل، بھارت کے پیدا کردہ بیرونی اثرات اور پاک امریکہ کے بھارت مخالف مؤقف جو اکثر اپنی خارجہ پالیسی سے بھارت دوست ممالک پر اثرانداز ہوتا ہے، کے درمیان تعلق قائم کرتے ہوئے پاک امریکہتعلقات پر متوازن نظریہ پیش کرنا ضروری ہے تاکہ زیادہ منطقی اور معروضی انداز میں معلومات فراہم کی جائیں۔ اسی طرح بھارت کے لیے امریکی حمایت پاکستان کے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہے گی۔ جنوبی ایشیا میں پاک امریکہتعلقات کشیدہ رہے ہیں یہاں تک کہ امریکا بھارت اور چین پاکستان تعلقات مضبوط ہوئے۔ اس خطے کو اب مزید گہری اور زیادہ کثیر جہتی دھڑے بندی کا سامنا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عالمی مسابقت علاقائی تنازعات کو ہوا دیتی ہے اور مفاہمت کی راہوں کو محدود کرتی ہے۔
1947ء سے 2001ء تک پاک امریکا تعلقات کی تاریخ میں پاکستان میں امریکہ مخالف رویے کی بُنیاد کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد واشنگٹن نے پاکستان کے حوالے سے کیسے پالیسیاں وضع کیں اور ان پر عمل کیا، اور تجزیہ کیا کہ کس طرح علاقائی محرکات، خاص طور پر چین کا عروج پاک امریکہ تعلقات کی صورت ترتیب دیتا ہے۔
جب 11 ستمبر کے حملوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درہم برہم کر دیا تھا، اس سے قبل امریکی پابندیاں، پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر امریکی دباؤ اور 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران سی آئی اے کا پاکستان کی خفیہ حمایت پر انحصار جیسی دیگر رکاوٹیں بھی موجود تھیں۔ جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام پوری رفتار سے آگے بڑھ چکا تھا کیونکہ پاک امریکہ تعلقات طویل تباہی کا شکار تھے۔
1970ء کی دہائی کے اواخر میں، دونوں ممالک اتحادیوں سے زیادہ حریفوں کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔ جب 1979ء میں پاکستانی احتجاجی طلبا نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو تباہ کیا تو پاکستان کے حکمران جنرل ضیاء الحق نے بچاؤ کی کوشش کی بجائے احتجاج کے خود ختم ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ اِسی طرح امریکی “بے ایمانیوں” کے بھی کئی واقعات سامنے آئے، جیسا کہ وہ وقت جب امریکا نے 1965ء یا 1971ء میں بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے اتحادی کی طرح برتاؤ نہیں کیا تھا، یا 1990ء میں جب واشنگٹن نے پاکستان پر ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کو شروع کرنے کے لیے پابندیاں عائد کی تھیں۔
تاہم، مغربی تھنک ٹینکس اسے ایک مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ، بھارت کے ساتھ جنگ اور جوہری پروگرام، پاکستان کے اپنے انتخاب تھے جس کی وجہ سے متوقع ردعمل سامنے آیا، نہ کہ دھوکہ دہی ہوئی۔ اس لیے پاکستانی اور امریکی ایک ہی تاریخ کی مختلف تشریح پیش کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اس شکایت میں حقیقت بھی ہے کہ امریکہ نے اُن کے ملک کو جب اُس کے مفاد میں تھا، استعمال کیا اور پھر جب یہ مصیبت بنا تو اسے ایک طرف پھینک دیا۔
1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے، امریکہ نے پاکستان کو اپنے دشمنوں کے خاتمے کا ایک ذریعہ سمجھا، چاہے اس سے مُراد کمیونزم کا مقابلہ کرنا ہو، دہشت گردی سے لڑنا ہو یا جوہری پروگرام کو آگے بڑھانا ہو۔ جب پاکستان تعاون کرتا رہا تو اسے امریکہ کی فراخدلانہ امداد، سفارتی یا ساز و سامان کی مدد حاصل تھی جو دشمن بھارت کے خلاف کارآمد ثابت ہوتی۔ جب پاکستان نے تعاون نہ کیا تو یہ ڈور کٹ گئی۔ اسی طرح، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے بھی امریکہ کو استعمال کیا، جب سابقہ رہنماؤں نے اپنے ایجنڈوں، اکثر اوقات بدعنوانی اور اکثر پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ مسلسل جغرافیائی سیاسی تنازعات کے سبب، کی تکمیل کے لیے خود کو امریکی غلامی میں جھونک دیا۔
دونوں فریق ایک ایسا تعلق قائم کرنے میں ناکام رہے جو اُن کی وقتی ضروریات سے بالاتر ہو۔ دونوں کے درمیان الجھے ہوئے تعلقات کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی بے یقینی، احتیاط اور بداعتمادی پیدا ہوئی۔ ہر بحث، عوامی اور نجی گفتگو میں، پاکستانی عادتاً امریکہ کو اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، بسا اوقات الجھے سازشی نظریات کے ذریعے بھی۔ چاہے بات چیت کا رُخ حکومتی بدعنوانیوں، خودکش بمباروں، یا بجلی کی بار بار لوڈشیڈنگ کی طرف ہو، عام طور پر امریکہ کو اس کا بڑا الزام دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی امریکی حکمتِ عملی کے صرف تین آپشن دیکھ سکتا ہے ۔۔۔ دفاع، پہلے فوجی تعاون اور جامع تعاون۔ واشنگٹن بدترین کے لیے تیاری کر سکتا ہے، بہترین کو مقصد بنا سکتا ہے اور ماضی کی غلطیوں سے پرہیز کر سکتا ہے۔
مُصنفہ کراچی میں صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں