حزیمہ بخاری

01st Jan, 2023. 09:00 am

تبدیلی کا وقت

لکھاری وکیل، مصنفہ اور لمز میں ایجوٹنٹ فیکلٹی، پی آئی ڈی ای  کی سینئر وزیٹنگ فیلو اور مشاورتی بورڈ کی رُکن ہیں۔

’’اس بات سے انکار مشکل ہے کہ جنگ کے بجائے امن کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والوں کی ایک خطرناک تعداد یا تو تنہا بندوق برداروں کے ہاتھوں ماری گئی یا پھر وہ مشتبہ حالات میں ہلاک ہوئے۔ یقیناً ہم جان ایف کینیڈی، مارٹن لوتھر کنگ، بے نظیر بھٹو، بوبی کینیڈی اور جان لینن جیسے چند لوگوں کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن یہ چند ایک ہی نام ہیں‘‘- جیمز مورکن، دی آرفن کنسپیریسیز: 29 کنسپریسی تھیوریز فرام دی آرفن ٹریلوجی

انسان بنیادی طور پر اناپرست، خود سے محبت کرنے والی نوع ہے جو نہ صرف تنہا مسائل کا سامنا کرنے والے فرد کے طور پر اپنی کامیابیوں پر بہت زیادہ فخر محسوس کرتا ہے ، بلکہ اس وقت بھی اسے فخر کا احساس ہوتا ہے جب اسے دوسروں کی مدد ملتی ہے۔ بہت سے معاملات میں، ‘میں’ سے ‘ہم’ تک کا سفر مشکل ہوتا ہے اور زیادہ تر کسی کے اندرونی غرور کی قیمت پر آتا ہے، جو کسی اور کے تعاون کو دل سے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوتا ہے۔ دوسری طرف، ‘ہم’ سے ‘آپ’ کی طرف بڑھنے میں مشکل سے ایک لمحہ لگتا ہے، خاص طور پر منفی حالات میں۔

روزمرہ کی زندگی میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جب شوہر گھریلو ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اپنی بیویوں کی خوبیوں کو آسانی سے نظر انداز کرنے کے بعد اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ غلط ہو جائے تو سارا الزام ان پر ڈالنے میں جلدی کرتے ہیں۔ طلباء تعلیمی کامیابیوں میں اپنی ذہانت پر فخر کرتے ہیں، اپنے اساتذہ کی محنت کو بھول جاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں فوراً سارا الزام ان پر دھر دیتے ہیں۔ جیتنے والی ٹیم کا کپتان دوسرے اراکین کی کامیابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی قیادت کی تعریفیں کرنے لگتا ہے۔ لیکن میچ ہارنے کی صورت میں ٹیم کی جانب سے حمایت نہ ملنے کا الزام لگاتا ہے ۔

تجربہ بتاتا ہے کہ جب تحقیقی مقالے کی شکل میں کوئی پروجیکٹ سات افراد کے گروپ کے حوالے کیا جاتا ہے، تو صرف ایک یا دو افراد اس میں گہری دلچسپی لیتے ہیں، کچھ لوگ اپنی رائے دینے کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں جب کہ دوسرے صرف مفت کی سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پھر بھی، آخر میں، سبھی مساوی کریڈٹ چاہتے ہیں۔ اس خیال کو ہم عملی جامہ پہنانے سے کتراتے ہیں کہ ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جب ٹیم میں شامل ہر فرد کوششوں اور یہاں تک کہ لاگت کو ضائع کرنے کے بجائے پوری لگن اور خلوص نیت سے کام کرے۔

Advertisement

پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو لامحدود قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ بدقسمتی سے قوم بالکل بے سمت ہو چکی ہے۔ ہماری سویلین اور فوجی حکومتوں نے عوام پر اس کے منفی اثرات کے بارے میں سوچے بغیر اپنے لیے کریڈٹ لینے، اپنے اصول بنانے اور اپنے حریفوں کی کوششوں کو نظرانداز کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ ان برسوں کے سیاسی اتار چڑھائو کا واحد پائیدار نتیجہ میوزیکل چیئرز کا کھیل رہا ہے، جس میں شرکا اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکیل رہے ہیں۔

جب اہمیت رکھنے والے اس طرح کے کھیلوں میں مگن ہوتے ہیں تو  پھر یہ تعجب کی بات نہیں کہ ملک کے قدرتی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ امن و امان کی صورتحال قابو سے باہر ہے جب کہ اراکین پارلیمان کو قانون سازی میں دلچسپی نہیں، انتظامیہ عوام کی ضروریات سے فائدہ اٹھانے میں مصرو ف اور عدلیہ فوری انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے، عوام مہنگائی کی بلند ترین شرح سے پریشان ہیں ، اور عالمی سطح پر ملکی ساکھ زوال پذیر ہے۔ شکایات کی کوئی انتہا نہیں۔ جب بھی موقع ملے ہر کوئی ان مسائل کے بارے میں لامتناہی گفتگو کرسکتا ہے۔

ہم جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن ہم ایک ایسے نظام کا بھی شکار ہیں جس نے جمہوریت کو حقیقی معنوں میں کبھی پنپنے نہیں دیا۔ بے نظیر بھٹو، پاکستان کی 11ویں وزیر اعظم اور ایک مسلم ریاست کی سربراہی کرنے والی پہلی منتخب خاتون کو جمہوریت پر بہت اعتماد تھا کیونکہ ان کا یقین تھا: “پاکستان کی بقا، استحکام اور سلامتی اپنے عوام کو بااختیار بنانے اور سیاسی اداروں کی تعمیر میں مضمر ہے۔ میرا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک نسل کے دل و دماغ کی بنیادی جنگ جمہوریت کے تحت ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔”

ان کی امید پوری ہوئی یا نہیں، یہ بات بطور وزیراعظم، ان کے مختصر ادوار- 1988 ء سے 1990 ء اور 1993 ء سے 1996ء تک۔ سے واضح ہوجاتی ہے۔ انہیں مختلف الزامات کی وجہ سے عہدے پر اپنی مدت پوری کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود، ان کا یقین متزلزل نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے کہا : میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کا ایک پورا طبقہ صرف اس بنیاد پر میری مخالفت کرتا ہے کہ میں ایک عورت ہوں۔ علماء نے مساجد میں کہا کہ یہ کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے عورت کو ووٹ دے کر خود کو مسلم دنیا اور امت مسلمہ سے خارج کرلیا ہے کیونکہ ایک عورت نے اسلامی معاشرے میں مرد کا مقام چھین لیا ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کو ان کا قتل ان کے نظریات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

یہاں سے بات ایک اور انداز فکر کی طرف جاتی ہے جو کسی ملک یا کمپنی کی سربراہ تو ایک طرف خواتین کے اپنے گھر کی سربراہ ہونے کے خیال کی مخالفت کرتا ہے۔ عورت کی صلاحیتوں پر یہ عدم اعتماد اس قدر شدید ردعمل کا باعث بنا ہے کہ بہت سی حقوق نسواں کی تحریکوں کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات اس کی وجہ سے خواتین یہ ثابت کرنے کے لیے اپنی موروثی خصوصیات کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئیں کہ وہ اعلیٰ عہدوں کی اہل ہیں۔ جوسی گلوسز کے مطابق، کمزور دکھائی دینے کا خوف خواتین کو اتنا متاثر کرتا ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتی ہیں تو وہ مردوں کی تقلید کرنے لگتی ہیں، اس خیال کو غلط ثابت کردیتی ہیں کہ وہ زیادہ امن پسند ہوں گی۔ لیکن ان خواتین کی مثالیں اتنی محدود ہیں کہ کوئی حقیقی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات اسٹیون پنکر کے مطابق، اگر دنیا کی رہنما خواتین ہوتیں تو زمین شاید زیادہ انسانی جگہ ہوتی۔

کسی کے انداز فکر کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہے لیکن جب معاملات بے قابو ہو جائیں تو یہ ضروری ہو جاتا ہے۔ پاکستان کو خوشحال اور ترقی پسند بنانے کے لیے، ہمیں ایک زیادہ مربوط اور تعاون پر مبنی سیاست کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے اور ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا سیکھنا چاہیے۔جھوٹی انا کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے، زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے اور خصوصی طور پر پورے ملک اور عمومی طور پر دنیا بھر میں امن کا قیام مقصد ہونا چاہیے ۔

Advertisement

Next OPED