ڈاکٹر مراد علی

12th Feb, 2023. 09:00 am

چین بمقابلہ امریکہ

مصنف نے نیوزی لینڈ کی میسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ ’’پاکستان کے لیے امریکی امداد کی سیاست: ٹرومین سے ٹرمپ تک امداد کی تقسیم اور ترسیل‘‘ (روٹلج) کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ مالاکنڈ یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے سربراہ ہیں۔

امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ اب ایک نئی سرد جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے، جس کی ایک وجہ تائیوان کے دائمی مسئلے پر امریکہ کے جارحانہ مؤقف اور روس یوکرین جنگ پر چین کے موقف کے علاوہ متعدد دیگر اختلافات ہیں۔

حال ہی میں امریکی فضائیہ کے ایئر موبلٹی کمانڈ کے سربراہ فور اسٹار اہلکار جنرل مائیک منیہن نے غالباً تائیوان  کے مسئلے پر 2025ء کے اوائل میں چین کے ساتھ تصادم کے بارے میں خبردار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے کمانڈروں پر زور دیا کہ وہ رواں برس زیادہ سے زیادہ آپریشنل جنگ کی تیاریوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی یونٹوں پر دباؤ ڈالیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی سرزمین پر چینی غبارے کو نشانہ بنائے جانے نے کافی حد تک صورت حال کو مزید گھمبیر بنا دیا، جس کے نتیجے میں دو طرفہ کشیدگی کو کم کرنے کے مقصد سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا چین کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔چین نے دعویٰ کیا کہ غبارہ موسمیاتی مقاصد کے لیے تھا لیکن وہ بھٹک گیا تھا، جب کہ امریکہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ جاسوسی کے مشن پر تھا۔

یہ واقعہ سی آئی اے کے U-2 جاسوس طیارے کے واقعہ کی یاد دلاتا ہے، جس میں ایک امریکی پائلٹ گیری پاورز موجود تھے-ان کا طیارہ سوویت یونین کی فضائی حدود میں جاسوسی مشن کے دوران مار گرایا گیا تھا۔ یکم مئی 1960ء کو امریکی پائلٹ کا طیارہ  پاکستان کے شہر پشاور کے بڈھ بیر فوجی ہوائی اڈے سے روانہ ہوا۔ یہ ’سوویت یونین کی جانب اڑان بھرنے کی پہلی کوشش تھی، تاہم اسے ایک طرح کا جوا سمجھا گیا تھا، جیسا کہ اہم اہداف کو عبور کرنا جن کی اس سے پہلے کبھی فوٹوگرافی نہیں کی جاسکی تھی‘۔ امریکہ کو جلد ہی سوویت یونین میں گیری پاورز کی گمشدگی کا علم ہوا۔ انہوں نے ایک محتاط بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’موسمی طیارہ‘ اس کے پائلٹ کو ’آکسیجن کے آلات میں مشکلات‘ پیدا ہونے کے بعد راستے سے بھٹک گیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سی آئی اے حکام کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ’طیارہ گر کر تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا اور سوویت یونین نے اس کا سامان برآمد کر لیا تھا‘۔ جاسوسی کے لیے کردار کے اعتراف اور عوامی سطح پر معافی سے قبل کے جی بی نے کئی ماہ تک گیری پاورز سے بڑے پیمانے پر تحقیقات کیں ، کیونکہ جنوبی ایشیا پر سرد جنگ کے منحوس بادل منڈلا رہے تھے،جن کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

امریکہ اور چین کی صورتحال پر واپس آ تے ہیں۔ عوامی سطح پر ان کے متحارب لہجے کے باوجود دوطرفہ تعلقات منقطع یااس حد تک خراب نہیں ہوئے کہ ٹھیک نہ ہوسکیں۔ مصنفین الزبتھ اکانومی اور مائیکل لیوی نے ’ہر طرح سے ضروری ہے: چین کی وسائل کی تلاش دنیا کو کیسے بدل رہی ہے‘ہے،نامی کتاب  میں زور دیا کہ ’’پیپلز لبریشن آرمی نیوی (PLAN) مستقل طور پر اپنی قوت میں اضافہ کررہی ہے اور بیرون ملک اڈوں کو تلاش کررہی ہے، وہ ایک ایسے دن کے لیے تیاری کر رہے ہیں جب یہ نہ صرف امریکہ  بلکہ دور دراز کے علاقوں اور تنگ سمندری راستوں کی نگرانی کریں گے جہاں سے چین اور دنیا کے اہم وسائل کی تجارت ہوتی ہے۔ جب کہ یہ تقریباً ایک دہائی پہلے کی پیشین گوئی تھی، اب تک چین کے پاس صرف جبوتی میں ایک سمندر پار بحری اڈہ ہے، جبکہ افریقہ کی چھوٹی بندرگاہی ریاست امریکہ، فرانس اورجاپان سمیت آٹھ سمندر پار فوجی اڈوں کی میزبانی کرتی ہے۔

Advertisement

ان دونوں عالمی طاقتوں کی عسکری صلاحیتوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہرین چینی فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ بیجنگ کے ارادوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ زمینی حالات اور موجودہ حقائق خاص طور پر چینی ساحلوں سے باہر چینی فوجی برتری کے حوالے سے بیانیے کی حمایت نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر نیویارک میں قائم کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فار ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ کے محققین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے بیرون ملک 750 فوجی اڈے ہیں۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ’’بیرون ملک 750 امریکی فوجی اڈوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے، قونصل خانے اور مشنز سے تقریباً تین گنا زیادہ فوجی اڈے موجود ہیں۔‘‘ یہ تضاد واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کو فروغ دینے کے لیے سفارتی ذرائع کا سہارا لینے یا اپنی فوجی برتری کو استعمال کرنے کو کتنی ترجیح دیتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 750 امریکی فوجی اڈے دنیا کے دیگر تمام ممالک کے مشترکہ اڈوں سے تین گنا زائد ہیں۔ برطانیہ کے مبینہ طور پر مجموعی 145 غیر ملکی فوجی اڈے ہیں۔ جب کہ باقی دنیا کی فوجیں 50 سے 75 کے درمیان ممکنہ طور پر کنٹرول کرتی ہیں، جن میں روس کے دو سے تین درجن غیر ملکی اڈے بھی شامل ہیں۔ اسی تحقیق کے مطابق بہت زیادہ بیرون ملک اڈے رکھنے کی پالیسی کے سنگین مضمرات ہیں۔ امریکی ساحلوں سے باہر امریکی فوج کی عالمی موجودگی سے امریکی ٹیکس دہندگان کو سالانہ 55 ارب امریکی ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔تاہم متعدد امریکیوں اور دیگر کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اولا، چین آبادی اور جغرافیائی دونوں لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے۔ 1اعشاریہ4 ارب سے زائد آبادی کے ساتھ،جوکہ عالمی آبادی کا تقریباً 19 فیصد ہے، یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ 95لاکھ 96ہزار9سو60 مربع کلومیٹر کے مجموعی رقبے کے ساتھ، پانچ جغرافیائی ٹائم زونز پر محیط اور 14 مختلف ممالک کی سرحدوں سے متصل چین روس، کینیڈا اور امریکہ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ بروقت اصلاحات اور سستی لیبر کی فراہمی کی دانشمندانہ پالیسیوں نے چین کو حقیقی معنوں میں ’دنیا کی فیکٹری‘ میں بدل دیا ہے۔ لہٰذا، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور دنیا کی سب سے بڑی تجارتی قوم بھی ہے۔ چین 124 ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جب کہ امریکہ 56 ممالک کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ چین کے پاس دنیا کے سب سے بڑے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور وہ دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ، صنعت کار، توانائی کا صارف اور سب سے بڑی آٹو مارکیٹ بھی ہے۔

ان تمام انتہائی متاثر کن اعدادوشمار کے پیش نظر، کیا چین امریکہ کو چیلنج اور پیچھے چھوڑ سکتا ہے، خاص طور پر فوجی میدان میں؟ یہ امریکی پالیسی کے حلقوں میں سب سے دلچسپ اور سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ہے۔’چائنا گوز گلوبل: دی پارشل پاور‘ کے عنوان سے اپنی مستند کتاب میں چین کے نامور ماہر شمبوگ نے چین کے عالمی سطح پر ابھرنے کا جامع تجزیہ کیا ہے اور اس امکان کو مسترد کیا ہے کہ چین جلد ہی کسی بھی وقت امریکہ یا اس کے مغربی اتحادیوں کو چیلنج کرنے کے لیے افق پر آ جائے گا۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ چین عالمی طاقت نہیں ہے جیسا کہ روایتی طور پر مانا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بہترین طور پرچین ایک جزوی طاقت ہے، جس کا عالمی سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی شعبوں میں بہت کم اثر و رسوخ ہے۔

جیسا کہ اس تحریر کے شروع میں روشنی ڈالی گئی کہ امریکہ کی فوجی  لحاظ سے برتری بے مثال ہے۔ بی آر پوسن نے اپنے مضمون بعنوان ’Command of the Commons: The Military Foundation of US Hegemony‘ میں دلیل دی ہے کہ ’’امریکی تسلط کا ایک ستون امریکہ کی بڑی فوجی طاقت ہے‘‘۔ مصنف نے مزید وضاحت کی ہے کہ یہ طاقت اس لیے ہے کہ ’’امریکہ کو کامنز ، سمندر، خلا اور ہوا کی کمان کی کمانڈ حاصل ہے ۔‘‘لہٰذا، چین یا کسی دوسری عالمی طاقت کے لیے ان تینوں میدانوں میں امریکا سے مقابلہ کرنا ایک بعید از خواب لگتا ہے کیونکہ اسے زبردست غلبہ اور اجارہ داری حاصل ہے۔

اپنی 2018ء کی کتاب ’لاثانی: کیوں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہے گا‘ میں پروفیسر بیکلی نے دلیل دی ہے کہ ’’امریکہ کے پاس کسی بھی دوسری قوم سے دو گنا زیادہ دولت اور فوجی صلاحیتیں ہیں‘‘۔

Advertisement

صرف وقت ہی بتا سکتا ہے کہ آیا چین کا امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کا سیاسی عزم ہے اور کیا وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ جیسا کہ عظیم مصنف شیکسپیئر نے کہا ہے کہ ’’اے وقت! میں نہیں تو اس گرہ کو کھول دے،کیونکہ میرے لیے اس گرہ کو کھولنا بہت مشکل ہے۔‘‘

Advertisement

Next OPED