بھارت کی کوتاہ بینی
مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں
ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کی پاکستان کو ‘دہشت گردی کا مرکز’ قرار دینے کی گردان بالآخر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سخت جوابی ردعمل کے بعد ختم ہوگئی۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘گجرات کا قصائی’ قرار دیا۔ مثالی طور پر ایسی کریہہ صورتحال ظہور پذیر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان کی سفارتی تاریخ تلخ لمحات سے بھری پڑی ہے، اور یہ نفرت ہندوتوا اکثریتی ذہنیت کے ساتھ بڑھ رہی ہے جس کی جڑیں اسلامو فوبیا اور تسلط پسندی میں پیوست ہیں۔
یہ سب دسمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت ہندوستان کے حصے میں آنے کے ساتھ شروع ہوا۔ دسمبر ہندوستان کی سلامتی کونسل کی دو سالہ رکنیت کا آخری مہینہ بھی ہے۔ صدارت پر فائز ہوتے وقت اراکین عام طور پر اپنے مسائل یا اپنے علاقائی مفاد کی مناسبت سے ‘خصوصی تقریبات’ کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہندوستان نے 14 اور 15 دسمبر کو بالترتیب ‘اقوام متحدہ کی اصلاحات’ اور ‘انسداد دہشت گردی’ پر دو پروگرام منعقد کرنے کا انتخاب کیا۔
پہلی اعلیٰ سطحی کھلی بحث بعنوان ’’بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی: اصلاحی کثیرالجہتی کے لیے نئی سمت بندی (NORMS)‘‘ کے موقع پر، ہندوستان نے اپنے حجم ، معیشت اور ایک ‘عطیہ دہندہ’ ریاست کی نئی حیثیت کی بنیاد پر اپنی امیدواری کے لیے میدان تیار کیا۔ عطیہ دہندہ کا ‘اسٹیٹس’ مختلف ممالک کو کورونا ویکسینز اور ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم کے عطیات دے کر حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے عوض بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا امیدوار بننے کے لیے حمایت طلب کر رہا ہے۔ دنیا کی پانچویں معیشت ہونے کا دعویٰ کرنے والا، ہندوستان پہلے 10 عطیہ دہندگان میں کہیں بھی شامل نہیں ہے، جو اپنی فیاضی کا چرچا کیے بغیر اربوں ڈالر کا عطیہ دیتے ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو کا موقف بالکل درست تھا جب انہوں نے مستقل رکن کے طور پر ہندوستان کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے عالمی ادارے کو مشورہ دیا تھا کہ “ہمیں سب کی مساوی خود مختاری کے اصول پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ کچھ کی برتری کا اصول اپنانا چاہیے۔” انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ نئے مستقل اراکین کو شامل کرنے سے “سلامتی کونسل کے مفلوج ” ہوجانے کے امکانات بڑھ جائیں گے، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا جب یہ فورم اپنے مستقل اراکین کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اپنے امور کی انجام دہی سے قاصر ہوگیا تھا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ کا بھارت کے خلاف جوابی بیان، اور وہ بھی اس کی جانب سے منعقد کردہ خصوصی تقریب میں ، بھارتیوں کے لیے شرمناک اور ناگوار رہا ہو گا۔ بلاول بھٹو کے عالمی ادارے سے مسئلہ کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے اور خطے میں امن کے لیے اپنے عزم کو پورا کرنے اور یہ ثابت کرنے کے مطالبے نے کہ ‘ کثیرالجہتی کامیاب ہو سکتی ہے’ ، کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہندوستانی وزیر برائے امور خارجہ کو مزید شرمندہ کیا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مستقل نشست کے امیدواروں (جاپان، جرمنی، برازیل اور جنوبی افریقہ) میں بھارت واحد ملک ہے جو تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت کو بطور امیدوار قبول کرنا جارح کو نوازنے اور قبضے کے عمل کو جائز قرار دینے کے مترادف ہوگا۔
‘دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات: انسداد دہشت گردی کے چیلنجز اور آگے بڑھنے کے لیے عالمی اپروچ’ کے موضوع پر دوسری اعلیٰ سطحی بریفنگ ہندوستان کے لیے اس وقت زیادہ مہلک ثابت ہوئی جب مسٹر جے شنکر نے اپنے تیز انداز میں پاکستان کو “دہشت گردی کا مرکز” قرار دے کر اس پر سخت تنقید کا اعادہ کیا۔ ہندوستان نے مذکورہ موضوع کا انتخاب سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی (سی ٹی سی) کے اجلاس، جو اکتوبر میں ممبئی اور دہلی میں ہوا تھا ، پر مزید غور و خوض کرنے کے لیے کیا تھا ۔ بھارت میں سی ٹی سی کے خصوصی اجلاس کے اختتام پر منظور کیا گیا دہلی اعلامیہ پاکستان مخالف تھا۔
جو شخص دو دہائیوں سے زائد عرصے تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مشن میں خدمات انجام دیتا رہا ہو، اسے پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہوئے ہندوستان کی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی عادت ضرور یاد آتی ہے۔ 15 دسمبر کا واقعہ بھی اسی زمرے میں گنا جا سکتا ہے جب بلاول بھٹو کو دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھانا پڑا ۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کو “گجرات کا قصائی” قرار دیا۔ یہ سخت لیکن حقیقت پسندانہ لقب بلاول بھٹو نے نہیں بلکہ ہندوستان کے بیشتر مسلمانوں اور حقیقت پسند ہندوؤں نے دیا ہے۔
گزشتہ سال افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد دہشت گردی کا معاملہ پس پشت چلا گیا ہے۔ یوکرین کا بحران مغربی دنیا میں ایک نیا زیربحث موضوع ہے۔ اس لیے، پاکستان مخالف جذبات سے مغلوب ہوکر سبرامنیم جے شنکر کی جانب سے پاکستان کو ‘دہشت گردی کا مرکز’ قرار دینے کے بیان کو شاید ہی کسی نے سنجیدگی سے لیا ہو۔ اگر، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80ہزار پاکستانیوں کی قربانی کے بعد، پاکستان اب بھی ایک مجرم اور ‘دہشت گردی کا مرکز’ ہے، تو پھر بھارتی وزیرخارجہ نے اپنا ہی مضحکہ اڑایا۔
سبرامنیم جے شنکر کو بلاول بھٹو کا جواب کوئی من گھڑت بیان بازی نہیں تھی، بلکہ حقیقت پر مبنی بیان تھا جس نے دنیا کو یاد دلایا کہ آر ایس ایس کے پرچارک،مودی پر، بھارتی گجرات میں 2002 ء میں مسلمانوں کے قتل عام میں ان کے کردار کے لیے شمالی امریکہ اور یورپ نے 2014 ء تک پابندی عائد کردی تھی۔ جب سے مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہیں، انھوں نے مغربی دارالحکومتوں میں اس پابندی کا خوب بدلہ لیا ہے، جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن کی ایک دوغلی مگر فائدہ مند اپروچ ہے۔
جہاں تک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نفرت پر مبنی ایجنڈے کا تعلق ہے، اس تنظیم کے یورپ اور شمالی امریکہ کے بیشتر حصوں میں بھی پیروکار موجود ہیں۔ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف آر ایس ایس کی نفرت پر مبنی تاریخ نے آہستہ آہستہ ملک میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ نتیجتاً اقلیتوں کے درمیان خوف اور بے یقینی کا ماحول پایا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے خیرخواہ اس کا دفاع ایک سماجی تنظیم کے طور پر کرتے ہیں، اور اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ یہ تنظیم ہی مہاتما گاندھی کے قتل میں ملوث تھی۔ اسی کے کارکنوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا جس کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ممبئی میں مسلمانوں کو اس کا نقصان سیکڑوں ہلاکتوں کی صورت میں اٹھانا پڑا ، جب کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذرآتش کرنے کے واقعے میں 70 افراد جاں بحق ہو گئے تھے ،جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے ۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو رہا کر دیا گیا۔ 2002 ء میں گجرات کا قتل عام وزیر اعظم مودی کی نگرانی میں ہوا، جو اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ کیا نیورمبرگ جیسا مقدمہ آر ایس ایس کے خلاف بھی نہیں چلنا چاہیے؟
دنیا کی ‘سب سے بڑی اور قدیم’ جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والا، ہندوستان ذات پات کی تفریق پر مبنی نظام جیسی لعنت کی وضاحت کرنے میں ناکام ہے۔ سناجی تفریق کا یہ نظام ہندوستان ہی سے مخصوص ہے۔ 200 ملین سے زیادہ ہندوستانی ہندو کو نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں نچلی ذات کے ، اور اچھوت انسانوں کے طور پر رہنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستانی اخبارات میں شائع ہونے والے ازدواجی اشتہارات کا ایک سادہ سا سروے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کس طرح آر ایس ایس کی سرپرستی میں ذات پات کی تفریق زندہ ہے اور پروان چڑھ رہی ہے۔ میڈیا کی آزادی اندرا گاندھی کی ایمرجنسی سے بھی بدتر ہے۔ صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں یا ان کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہیں۔ اس حد تک کہ آر ایس ایس نے ستمبر میں برطانیہ کے لیسٹر شہر میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ہمت کی جب 28 اگست کو ایشیا کپ میں ہندوستان اور پاکستان کے میچ کے نتیجے میں ہونے والی ‘گڑبڑ’ کے بعد ہندو اور مسلم گروپوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
نئے سال کے آغاز پر ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خارج ہوسکتا ہے ، لیکن وہ بطور رکن اپنی مدت کا اختتام ایک تلخ موڑ پر کررہا ہے۔ پاکستان کو ہدف تنقید بنا کر ، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، آر ایس ایس کی بزدلانہ نگرانی میں، زیادہ عوامی حمایت حاصل کر سکتی ہے کیونکہ اس کی نظریں 2024 کے انتخابات پر ہیں۔ آر ایس ایس کے اسلامو فوبیا کے ایجنڈے میں 2024 ء کے انتخابات سے قبل شدت آنے کا امکان ہے، جس کا مقصد اس ایجنڈے کا پرچار کرنے والوں کو پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کا بہانہ فراہم کرنا اور ساتھ ہی ساتھ کشمیر کے لوگوں اور ہندوستان کے دیگر مقامات پر مسلمانوں کے خلاف جبر کو بڑھاوا دینا ہے۔ افسوس کہ وقتی طور پر پاک بھارت تعلقات نئی پستیوں تک پہنچ گئے ہیں۔






