امید افزا اصلاحات
مصنف سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، 1980ء سے دہشت گردی کے ساتھ ہیروئن کی تجارت کے تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
2023ء پاکستان میں انتخابات کا سال ہے۔ وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں حقیقی جمہوری نظام کے لیے اپنے منشور کی تیاری شروع کر دیں، جو صرف سیاست میں بڑے پیمانے پر شرکت کو یقینی بناتا ہے، یہ ضروری ہے کہ نظم و نسق کے تمام شعبوں میں مکمل اصلاحات پر بحث کی جائے۔ ایسی اصلاحات جن کا مقصد خود انحصاری کے قابل قدر مقصد کا حصول ہو۔ پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری اور معاشی طور پر قابل عمل ریاست بنانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم مروجہ سیاسی اقتصادی نظام، جو معاشرے کے کم مراعات یافتہ طبقات کی قیمت پر اشرافیہ کی حمایت کرتا ہے، میں طویل ععرصے سے زیرالتواء اورانتہائی ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں کرتے ہیں ۔
اس تین حصوں پر مشتمل کوشش کا مقصد پاکستان کو درپیش معروف خرابیوں کے علاج کے لیے کچھ ٹھوس اور قابل عمل حل تجویز کرنا ہے، جنہیں جامع اصلاحات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حصہ درکار بنیادی اصلاحات کا جائزہ لے گا۔ آنے والے ہفتوں میں جامع اصلاحات اور ٹھوس تجاویز کا ایک تفصیلی روڈ میپ عوامی بحث اور تمام سیاسی جماعتوں کے غور و خوض کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس کوشش کا مقصد ہمارے بانیان کے آدرشوں اور سرزمین کے سپریم قانون یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے وضع کرنے والوں کے نظریات کے مطابق پاکستان کو آئندہ پانچ سال میں رہنے کے قابل جگہ بنانے کے لیے ایک اتفاق رائے تک پہنچنا ہے۔
مروجہ فرسودہ انتظامی اور عدالتی نظاموں میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کہ شہریوں کو مکمل حقوق حاصل ہوں، اور آئین میں متعین قانون اور اصولوں کے قانونی نظریے کی ذمہ داریاں پوری ہوں۔ ہمارے موجودہ قابل رحم سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کی بنیادی وجہ ناکارہ اور بدعنوان اداروں کا دائمی، غیر چیلنج، غیر مزاحمتی وجود ہے، جو عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئے ادارے اور تنخواہ دار ملازمین ذاتی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
معاشی پالیسی سازی اور سیاسی اصلاحات کا امتزاج ضروری ہے۔ اصلاحات اور بقا کے ایجنڈے میں ایک جامع، مربوط اور متحدہ منصوبہ ہونا چاہیے جو صرف اس کی کامیابی کو یقینی بنا سکے۔آپس میں مربوط ایک شعبے میں اصلاح جبکہ دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ بہتر کرنے کا سہارا لینا مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کرے گا۔ سیاہ معیشت (ٹیکس سے بچاؤ کے لیے ظاہر نہ کی جانے والی دولت یا اثاثے) کے خاتمے سے علیحدہ شدہ ٹیکس اصلاحات کا معاملہ توجہ کا مرکز ہے۔ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کی بنیادی وجوہات میں زیر زمین معیشت(خفیہ مالی لین دین یا آمدنی) کے بے مثال حجم کو پنپنے کی اجازت دینا، نااہل اور ناکارہ ٹیکس مشینری کا وجود، بے جا قرضے اور بے رحمانہ اخراجات ہیں۔ لہٰذا، متوازی معیشت کے اسباب کے خاتمے اور فضول اخراجات کو روکے بغیر ’چارٹر آف اکانومی‘ کے بار بار دہرائے جانے والے بیانات کے باوجود پبلک فنانس کے انتظام میں بہتری نہیں آئے گی۔
پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی، دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کی کمی کو قرار دیا جاتا ہے – ان پر ایسے افراد کا غلبہ ہے جو کھلے عام قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اپنے معاملات میں شفافیت سے گریزاں ہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ سیاسی جماعتیں ہرجانب سے تنقید کے باوجود اپنی صفوں میں جمہوریت کو متعارف کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب تک یہ جماعتیں اپنے کام میں بنیادی تبدیلیاں لا کر اپنی اصلاح نہیں کرتیں، پاکستان میں بامعنی (پائیدار) جمہوریت کی امید کم ہے۔
تمام قائم شدہ جمہوریتوں میں سیاسی جماعتیں باقاعدگی سے انتخابات کرواتی ہیں، اپنے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں، ٹیکس ریٹرن فائل کرتی ہیں، اور اخراجات کی تفصیلات اور عطیہ دہندگان کے نام ظاہر کرتی ہیں –یہ تمام ایسے عناصر ہیں، جن کی ہمارے سیاسی کلچر میں عدم موجودگی نمایاں ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو بھی مختلف قوانین کے تحت ان معیارات پر پورا اترنے کی ضرورت ہے لیکن ریگولیٹرز،الیکشن کمیشن آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان قوانین اور ضوابط کو نافذ کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
اس عزم کے ساتھ کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے گا، قطع نظر اس کے کہ کوئی بھی پارٹی جیتے، تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنے کے لیے درج ذیل نکات پرغورکر سکتی ہیں ۔ قانونی چارہ جوئی کی وجوہات کو ختم کرنے کے لیے انتظامی اور گورننس کے آلات میں تبدیلیوں کے ساتھ پہلی اور اولین ترجیح نظام عدل میں اصلاحات ہونی چاہیے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ معاشرے میں کسی بھی مقام ومرتبے سے قطع نظر سب کو انصاف کی فراہمی کو یقینی نہ بنائے۔ توجہ کا طالب دوسرا سب سے اہم شعبہ ناخواندگی کے خاتمے کے مقصد کے ساتھ تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے۔ ہمارا مسئلہ ناخواندگی ہی نہیں جہالت بھی ہے۔حتیٰ کہ نام نہاد خواندہ افراد بھی شہری شعور کی کمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تعلیم کا مرکزی نکتہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہیے جو روادار، نظم و ضبط، شائستہ اور باشعور ہو – اختراعات اور تکنیکی ترقی کرنے کے قابل ہو۔
مزید برآں، تمام اداروں کی افادیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ سینیٹ میں براہ راست انتخابات ہونے چاہئیں، اور اسے حکومت کے مصارف کی رقم کی منظوری کے مسودہٴقانون پر ووٹ دینے کا اختیار بھی دیا جانا چاہیے۔ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں۔ تعلیم، صحت، رہائش، مقامی پولیسنگ اور دیگر تمام شہری سہولیات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے ذریعے فراہم کی جانی چاہئیں، جن کے پاس ان مقاصد کے لیے ٹیکس بڑھانے کا اختیار ہونا چاہیے۔ حکومتوں میں ہرسطح پرڈیجیٹلائزیشن، شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ شہریوں کو قومی یکجہتی کے عمل کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس میں حصہ لینے کے قابل بنایا جا سکے۔ سول سروسز میں اصلاحات، مؤثر احتساب کے ساتھ ملازمین کے لیے دیانتدارانہ معاملے پر بھی توجہ دی جائے۔
علاوہ ازیں،قانون کے نفاذ کے ذریعے دہشت گردی، فرقہ واریت، تعصب، عدم برداشت اور تشدد کا خاتمہ کیا جائے اور زندگی اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر مبنی معاشرے کی سماجی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ، قومی خزانے کی لوٹ مار، قرضوں کی سیاسی معافی اور محصولات کی وصولیوں میں رساؤ کو روکنے کے لیے قوانین کا سختی اور مؤثر طریقے سے نفاذ کیا جانا چاہیے۔ قرضوں کے جال کو توڑنے، پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے اور تمام شہریوں کے لیے سماجی تحفظ اور معاشی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے طویل المدتی اور قلیل المدتی حکمت عملی وضع کی جانی چاہیے۔ شفاف پبلک سیکٹر اخراجات کے ساتھ موثر کارکردگی کے ذریعے پبلک فنانس مینجمنٹ میں اصلاحات اور استحکام پیدا کیا جانا چاہئے ۔ فضول، غیر ترقیاتی اور غیر جنگی اخراجات پر قابو پانے کے لیے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پبلک فنانس کی تکنیکی، ادارہ جاتی اور تنظیمی جہتوں میں اصلاح کی جانی چاہیے۔ اچھی حکمرانی اور بدعنوانی سے پاک حکومتی ڈھانچے کو یقینی بنایا جائے۔
جہاں تک ٹیکس اصلاحات کا تعلق ہے، وفاقی حکومت کو ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس وصول کرنا چاہیے۔ اشیاء اور خدمات پر ہم آہنگ سیلز ٹیکس صوبائی حکومت کے دائرہ کار ہونا چاہئے، تمام وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکس ایک ایجنسی (نیشنل ٹیکس اتھارٹی) کے ذریعے جمع کیے جائیں، جو شہریوں کو پنشن اور دیگر سماجی تحفظ کی ادائیگیاں بھی کرے۔ حد سے زیادہ ٹیکس کی شرح کو کم کیا جائے اور اسے دنیا، خاص طور پر ایشیا کے دیگر ٹیکس دائرہ کاروں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی جانی چاہیے، جبکہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے بھاری ٹیکس اور دیگر ضوابط جو کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بنیادی رکاوٹ ہیں، کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ٹیکس سے متعلق قوانین اور طریقہ کار کو بھی آسان بنایا جائے۔
جمہوری معاشرے کے لیے منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون کی حکمرانی کا احترام ضروری ہے۔ وہ اقرباءپروری کو فروغ دینے کے لیے قانون کا مذاق اڑاتے ہیں، جو کہ جمہوریت کی بنیادی روح سے متضاد رویہ ہے۔ صرف انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ عوام کی نمائندگی کے حصول کا ذریعہ ہیں، جسے برسراقتدار افراد یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہمارے حکمران یعنی سول اور ملٹری دونوں ہی ہر کام جمہوریت کے منافی کر رہے ہیں۔ انہوں نے عوام دشمن معاشی پالیسی سازی کا سہارا لیا ہے۔ جس نے پاکستان کی معاشی خود انحصاری کے لیے کوشش کی بجائے اسے بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ موجودہ صورتحال انہی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
دوسرا حصہ سب کے لیے استحکام، ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا خاکہ پیش کرے گا۔
بقیہ آئندہ ہفتے