محمد بن سلمان کی ترجیح کاروبار
سعودی عرب نہ تو 2019 ء میں امریکہ کے زیراثر تھا اور نہ ہی اب وہ گوادر میں ریفائنری لگانے کے فیصلے میں امریکہ کے زیراثر ہے۔ یہ قدم وہ معاشی نقطہ نظر سے اٹھا رہا ہے
مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کے پریس اتاشی نائف العتیبی نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 21 نومبر کو پاکستان پہنچیں گے۔
یہ تصدیق اسی دوران ہوگئی تھی جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان شرم الشیخ میں ملاقات ہورہی تھی۔ شرم الشیخ مصر کا ایک مشہور تفریحی قصبہ ہے جہاں مختلف ریاستوں کے 200 سے زائد نمائندے اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس، COP-27 میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہوئے تھے۔ شہباز شریف کانفرنس میں وزراء کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں شہزادے کے ساتھ ان کی دوسری ملاقات تھی۔ آخری بار دونوں کی ملاقات اکتوبر کے آخری ہفتے Davos in the Desert کانفرنس میں ہوئی تھی، جس میں دنیا بھر سے 6000 کاروباری رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
شرم الشیخ میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں نواز شریف کے ساتھ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے جو ملاقات کے فوراً بعد 9 نومبر کو دو روزہ دورے پر سعودی عرب روانہ ہوگئے جہاں وہ تجارتی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
بلاول بھٹو کا سعودی عرب کا دورہ دراصل شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران زیادہ سے زیادہ کاروباری سودے حاصل کرنے کی حکومتی کوششوں کا حصہ ہے۔ آخری بار جب محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان انہیں اسلام آباد ایکسپریس وے کے ذریعے تیز رفتاری سے وزیراعظم آفس تک لے گئے تھے۔ اس دوران 1000 سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار اس راستے پر موجود تھے جسے دونوں ممالک کے پرچموں سے مزین کیا گیا تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان ریاستی حکام اور کاروباری افراد کے ایک بڑے وفد کی قیادت کر رہے تھے جس نے 20 ارب ڈالر سے زیادہ کے بڑے معاہدے کیے تھے۔
ان سودوں میں گوادر میں 10 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ تاہم، آئل ریفائنری کے مرکزی منصوبے پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی اور اس وقت کے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد جیسے ذمہ دار حکومتی اہلکاروں نے اس منصوبے اور اس کے متوقع قیام کی جگہ پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ عبدالرزاق داؤد بین الاقوامی اہمیت کے حامل بڑے منصوبوں کے حوالے سے روایتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرتے تھے اور شاذ و نادر ہی حقائق کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔
مثال کے طور پر، انہوں نے 2 مارچ 2021 کو ٹویٹ کیا: ’’ہمیں یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ استنبول-تہران-اسلام آباد (ITI) مال بردار ٹرین 9 سال کے بعد 4 مارچ-2021ء سے دوبارہ فعال ہورہی ہے۔‘‘ مارچ کے مہینے میں ٹرین سروس دوبارہ شروع نہیں ہوسکی لیکن میڈیا میں اس معاملے کی نشاندہی کے باوجود انہوں نے اس ٹویٹ کو نہیں ہٹایا۔
اس وقت آئل ریفائنری جیسے بڑے منصوبے کا آغاز اور اسے مکمل کرنے کی صلاحیت کے مسائل کا اظہار کرنے والے رزاق داؤد کے بیانات کو اس بیانیے سے جوڑ دیا گیا تھا کہ سعودی عرب خطے میں چین اور ایران کو پیچھے چھوڑنے کی کسی نہ کسی کوشش کے تناظر میں امریکہ کے کہنے پر گوادر میں دلچسپی لے رہا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی اور شے سے زیادہ تیزی سے امریکہ دشمنی پروان چڑھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ انتہائی گرمجوش تعلقات تھے۔ اسی طرح عمران خان نے بھی واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے ساتھ کھل کر گفتگو اور ایک جاندار پریس کانفرنس کی تھی۔
عمران خان اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جب صدر ٹرمپ اوول آفس میں تھے تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مضبوط تھے۔ ان کے دعوؤں کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے اسلام آباد میں سفیر کا تقرر نہیں کیا اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی، جو پاکستان کے لیے اس کی ناپسندیدگی کی واضح علامت تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدر ٹرمپ نے ہندوستان کا طویل ترین سرکاری دورہ کیا تھا۔
جب جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ سردمہرانہ رویہ اختیار کیا۔ اعلیٰ امریکی سفارت کار، سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے گزشتہ سال میڈیا کو واضح طور پر بتایا تھا کہ امریکہ کا مقصد سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو “بہت دانستہ انداز میں ’’ازسرنو استوار کرنا‘‘ ہے۔ اس کے بیان پر سعودی عرب کی طرف سے ایک مناسب ردعمل سامنے آیا، جس کے بعد وہ اس بیان کی تلخی کو کم کرنے پر مجبور ہوگیا۔
دراصل تنازعہ کی وجہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ تھا جو پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور روس سمیت اتحادیوں کی سفارشات کے مطابق تھا۔
اگرچہ امریکی حکومت نے اس حوالے سے سعودیہ پر اثر انداز ہونے کے لیے لابنگ کی ہو گی، لیکن اب اس کے پاس چند اختیارات( آپشنز )رہ گئے ہیں کیونکہ اس کے سرکاری سفارتی ذرائع کے پاس کھیل کھیلنے کی گنجائش نہیں رہی۔
بین الاقوامی منڈی میں پائیداری کی خاطر تیل کی پیداوار میں کمی کے اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے ایک ورچوئل اجلاس منعقد کیا جس میں بعد ازاں اوپیک پلس کے فیصلے کی توثیق کی۔ اور اس فیصلے کو ’’توانائی کی بین الاقوامی منڈی کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے توانائی کی ایک آزاد پالیسی…‘‘ قرار دیا۔
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خالصتاً اقتصادی ہے۔ سعودی عرب جیسی ریاستوں میں، معیشت سفارت کاری اور سیاست کی زبان ہے۔
بڑی بین الاقوامی طاقتیں ایندھن حاصل کرنے کا راستہ تلاش کر رہی ہیں اور گوادر ان کے لیے موزوں منزل ہے۔ آئل ریفائنری جو شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس منصوبے کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ آئل ریفائنری گوادر میں قائم کی جائے گی۔ وہ اسلام آباد میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں سعوی عرب کی طرف سے مرکزی بینک میں 4 ارب ڈالر سے زائد رقم جمع کرائے جانے کی بھی امید رکھتے ہیں۔
منصوبہ بندی کمیشن میں بحری امور کے مشیر جواد اختر کھوکھر ان اہم لوگوں میں سے ایک ہیں جو عام لوگوں کے سامنے چیزوں کو واضح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ 2017-18میں پاکستان اور سعودی عرب نے گوادر میں آئل ریفائنری لگانے پر اتفاق کیا تھا۔ گوادر پورٹ ماسٹر پلان 2006ء کے تحت وہاں ایک ’’پیٹرولیم سٹی‘‘ قائم کیا جا رہا ہے۔ اس سعودی آئل ریفائنری کا تصور بہت بھرپور ہے۔ گہرے سمندر کی بندرگاہ پر سنگل پوائنٹ لنگر اور آئل پلیٹ فارم بھی بنائے جائیں گے۔ اس ریفائنری میں خام تیل کی بڑی مقدار کو صاف کیا جائے گا اور گوادر بندرگاہ سے صاف تیل اور اس کی ضمنی مصنوعات ممکنہ گاہکوں تک پہنچائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا، ’’ایک عام آدمی کے لیے، یہ سعودی تیل کی تجارت کا مرکز ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پاکستانیوں کے لیے بالعموم اور بلوچستان کے لوگوں کے لیے بالخصوص ملازمتوں اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرے گا۔‘‘
بین الاقوامی ڈیلرز اور حکومتوں کے لیے یہ ریفائنری ایک نعمت ثابت ہوگی کیونکہ یہ گوادر کے تزویراتی(اسٹریٹجک) محل وقوع کی وجہ سے ان کے مال بردار بحری جہازوں کے وقت اور فاصلے کو کم کردے گی۔ جواد اختر کھوکھر نے واضح کیا کہ اس سے سعودی کمپنیوں کو بھی فائدہ پہنچے گا جنہیں آبنائے ہرمز میں کشیدگی کے وقت اپنی مصنوعات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس دورے کے دوران عمران خان تو ممکنہ طور پر سعودی شہزادے کو اسلام آباد ایکسپریس وے سے نہیں لے جا سکیں گے لیکن وہ اہم دفاتر میں صدر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے پرانے چہرے ضرور دیکھیں گے۔ سعودی عرب نہ تو 2019 ء میں امریکہ کے زیراثر تھا اور نہ ہی اب وہ گوادر میں ریفائنری لگانے کے فیصلے میں امریکہ کے زیراثر ہے۔ یہ قدم وہ معاشی نقطہ نظر سے اٹھا رہا ہے۔ عالمی اہمیت کے مسائل کے بارے میں الجھنیں پیدا کرنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا ہے کیونکہ دنیا بدل رہی ہے اور ہمیں بھی بدل جانا چاہیے۔