اعجاز حیدر

18th Sep, 2022. 09:00 am

یوکرین جارحیت کی راہ پر

6 ستمبر کو شروع ہونے والے یوکرین کے جارحانہ ردعمل نے روسی فوج کو ایک اہم آپریشنل دھچکا پہنچایا جس کے نتیجے میں تقریباً تمام خارکیو اوبلاست بشمول آپریشنل طور پر اہم شہر ایزیوم پر یوکرین کا دوبارہ قبضہ ہو گیا۔ اس حملے نے روسی فوج کو حیرت میں ڈال دیا جو جنوب میں خرسون پر اہم حملے کی توقع کر رہی تھی جس کے پیشِ نظر اُس نے مشرق سے جنوب میں افواج کو دوبارہ تعینات کر دیا تھا۔ (خارکیو میں جارحانہ کارروائیوں کا نقشہ دیکھیے، بشکریہ:  (War_Mapper

اگرچہ جنگ کسی بھی طرح سے ختم نہیں ہوئی ہے اور روس یقینی طور پر یوکرینی افواج کو نیچا دکھانے اور کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، تاہم تمام صحافتی اور عسکری اندازوں کے مطابق، یوکرین کا جارحانہ ردعمل فروری / مارچ میں کیف میں لڑائی کے بعد سے یوکرینی فوج کے لیے ایک اہم کامیابی ہے، جس نے روس کے اہم حملے کو ناکام بنا کر اُسے اِس محاذ سے اپنی افواج کو نکالنے اور ڈونباس کے خطے پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

روس نے خارکیو اوبلاست میں اپنی پسپائی اور یوکرینی کامیابیوں کو تسلیم کیا ہے جہاں ٹی وی چینلوں پر روس کی شکست کی وجوہات اور وضاحتوں پر بحث جاری ہے۔ روسی عسکری بلاگرز کا بااثر حلقہ بھی اِس پسپائی پر بحث کر رہا ہے اور ملکی وزارتِ دفاع اور وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے خود کو حالیہ واقعات سے دور رکھنے کی کوشش ہے۔

 

یہ کیسے ہوا؟

Advertisement

اس کا آغاز جنوب میں خرسون شہر سے ہوا۔ جیسا کہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے، یوکرین کے رہنما اور فوجی کمانڈر کھلے عام خرسون پر قبضے کے خلاف جارحانہ حملے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، جو دونوں اطراف کے لیے تزویراتی طور پر اہم شہر ہے۔ خرسون کے محاذ پر یوکرینی فوج کی توجہ بھی مرکوز تھی اور وہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے توپ خانے اور مخصوص چھوٹے حملوں کے ذریعے روسی افواج کو مُسلسل مصروف رکھے ہوئے تھے۔ سب سے اہم ہتھیار (HIMARS)  راکٹ نظام تھا، یہ نظام خرسون کے ساتھ ساتھ خارکیو اوبلاست دونوں میں روسی زمینی مواصلاتی پر حملہ کرنے اور ان کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

2 ستمبر کو، خارکیو کے شمال اور مشرق میں یوکرین کے جارحانہ ردعمل سے صرف چار دن پہلے صدر ولودومیر زیلنسکی نے روسی افواج کو خرسون سے “بھاگ جانے” کا عام انتباہ جاری کیا تھا۔ نہ صرف روسی، بلکہ ہر کوئی اِس چکمے میں آ گیا (جو واقعتاً خارکیو کی کامیابیوں کے بعد محض ایک چکمے سے زیادہ ہی ثابت ہوا)۔ صدر زیلنسکی کے بیان کے فوری بعد خرسون میں روسی افواج کے خلاف بھاری توپ خانے کے استعمال کی خبریں ملیں جن میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ حملہ جنگ میں یوکرین کے پہلے بڑے جارحانہ ردعمل کی گھنٹی ہے۔

خرسون کے محل وقوع کی وجہ سے بھی یہ بات قابلِ بھروسہ تھی۔ یہ شہر دریائے دنیپرو (Dnieper) کے شمال مغربی کنارے پر واقع ہے (اسے نیپر بھی پڑھا جاتا ہے)۔ یہ دریا یوکرین کو دو حصوں، مشرق اور مغرب میں تقسیم کرتا ہے کیونکہ یہ تقریباً شمال سے جنوب کی جانب بہتا ہے جو دارالحکومت کیف کو بحرِ اسود سے ملاتا ہے۔ خرسون اوبلاست شہر بھی دریا کے مشرق اور مغرب میں پھیلا ہوا ہے۔ شہر پر دوبارہ قبضے کا مطلب نہ صرف روسی افواج کو ایک بڑا شہر کھونے پر مجبور کرنا ہے، جس پر انہوں نے سب سے پہلے قبضہ کیا تھا، بلکہ اگر یوکرین کافی افواج جمع کر سکے تو محاذ پر اُن کی موجودگی کو ناقابلِ دفاع بناتے اور زرعی پٹی کو دوبارہ حاصل کرتے ہوئے اُنہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ یہ ماریوپول شہر پر دوبارہ قبضے کے لیے ایک اہم آپریشنل مرحلہ بھی تشکیل دے گا جو نہ صرف بحیرہ ازوف پر واقع ایک اہم بندرگاہ ہے بلکہ روس کے لیے بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ کریمیا اور ڈونباس کے درمیان انتہائی اہم زمینی رابطہ فراہم کرتا ہے۔

خرسون کا چکمہ اس لیے بھی قابلِ بھروسہ تھا کہ روسی افواج کو دریا کے دوسری جانب دھکیلا جا سکتا تھا اور اُن کا کوئی بھی محاذ یوکرینی توپ خانے کے نشانے پر آجائے گا۔ جیسا کہ جیک واٹلنگ نے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ  (RUSI)کے لیے ایک مضمون  میں لکھا، “جس دوران دریا روسیوں کو یوکرین کی جانب جوابی حملہ کرنے سے روکتا ہے، خرسون کے پلوں سے گزرنے والی رسد میں رکاوٹ بھی شہر کا دفاع کرنے والوں کی مؤثر نقل و حرکت یا قبضے کی راہ میں مزاحم ہو سکتی ہے۔”

تاہم، اصل جارحانہ ردعمل خارکیو اوبلاست میں ہوا جہاں خرسون میں دوبارہ تعیناتی کے باعث روسی دفاع کو کمزور کر دیا گیا تھا۔ یوکرین کی چال کو بعض مُبصرین نے ایک ماہرانہ حربہ قرار دیا ہے لیکن سات ماہ سے جاری اِس جنگ میں جو ممکنہ طور پر 2023ء تک چلی جائے گی، ایسی کئی جھڑپیں ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یوکرین کی فوج شمال مشرق میں کتنی دُور اور دیر تلک اس رفتار کو برقرار رکھ پائے گی۔ روسی منصوبہ ساز “ایک قابلِ دفاع محاذ دوبارہ قائم کرنے اور ممکنہ طور پر محدود جوابی حملے کرنے” کے لیے غالباً اچھا کام کریں گے۔

چاہے جو بھی ہو، قابلِ غور اہم نکتہ یہ ہے کہ اب جبکہ یوکرین نے جارحانہ کارروائیوں کے لیے اپنا عزم اور ارادہ ظاہر کیا ہے، تو قابلِ دفاع محاذوں اور مورچوں کے دفاع سے زیادہ جارحانہ کارروائیاں ہمیشہ زیادہ طلب اور قیمت کی حامل ہوتی ہیں۔

Advertisement

اِس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟

تین عوامل اہم ہیں، ایک سیاسی اور دیگر دو عسکری۔ سیاسی طور پر، کیف کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ امریکا، نیٹو، یورپی یونین کی ریاستوں سے ملنے والی بڑی فوجی امداد اور حمایت کا جواز پیش کرنے کے لیے جنگ کے میدان میں کارکردگی دکھائے۔ روس نے پہلے ہی گیس کی فراہمی روک دی ہے اور یورپی یونین کی ریاستوں کو سخت سردی سے خبردار کیا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یورپی باشندوں کو توانائی کے بھاری بلوں کے ساتھ ساتھ گیس کی راشن بندی کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ یورپی ریاستوں کے کیف کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کو مقامی طور پر عوامی مزاج اور حوصلے کے مطابق رہنا چاہیے۔

اب تک یوکرینی فوج اور رضاکاروں نے ایک مخالف قوّت کے خلاف متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جسے کیف کے مقابلے میں ابتدائی طور پر غیر متناسب فائدہ حاصل تھا۔

دیگر دو عسکری عوامل میں پہلا یہ ہے کہ روسی افواج کو بدستور پیچھے دھکیلنا اور انہیں جارحانہ کارروائیوں کے لیے افواج کو دوبارہ مُنظّم / تشکیل دینے یا ان کے زیر قبضہ علاقوں میں دفاع کو مضبوط کرنے کا کوئی بھی موقع نہ دینا ہے۔ تیسرا اور دوسرے عامل سے پیوستہ، یوکرینی فوج کو روس کے زیر قبضہ علاقے کو آزاد کرانے کے لیے اپنے حملوں کی منصوبہ بندی اور اُس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ اس کے لیے تزویراتی مقامات منتخب کرنے کی ضرورت ہوگی جس کے خلاف ہم آہنگی کے حصول کے لیے طاقت کا اطلاق کیا جائے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں انتشار اور جنگی چالیں آپس میں تعامل کرتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، جارحانہ کارروائیاں ہمیشہ زیادہ طلب اور قیمت کی حامل ہوتی ہیں۔ انہیں صبر آزما منصوبہ بندی، اقدامات اور عمل درآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ایک چھوٹی قوت حقیقتاً کوئی بڑی پیش رفت کر سکتی ہے تو حملہ آور قوت کو علاقے پر قبضہ برقرار رکھنے اور استحصال کرنے کے لیے تازہ دَم دستوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یوکرینی فوج کی دستیاب افرادی قوت، جانی اور مادی نقصانات اور نقصانات کے جلد ازالے کی صلاحیت پر انحصار کرتے ہوئے یہ واضح ہونا چاہیے کہ قیادت کو اپنے جانی اور مادی دونوں وسائل کو بہتر فیصلوں سے درست طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔

کچھ خبروں سے پتا چلتا ہے کہ یوکرینی باشندے اب خرسون پر قبضے کے خلاف دباؤ ڈال سکتے ہیں جسے اصل میں چکمہ دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ انسٹیٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے مطابق، “یوکرینی افواج نے مبینہ طور پر دریائے دنیپرو کے مغربی کنارے پر کئی اہم مقامات پر حملہ کیا ہے اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے دریا پار دو پلوں کے رابطے کو منقطع کر دیا ہے اور اسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بارج اور پونٹون فیری کے ذریعے رسد برقرار رکھنے کی روسی کوششوں میں مداخلت بھی کی ہے۔”

Advertisement

اگر یوکرینی افواج خرسون شہر کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا وہ اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ جیک واٹلنگ کا خیال ہے کہ “خرسون پر قبضہ، سیاسی طور پر اہم ہونے کے باوجود دریائے دنیپرو کے مشرقی کنارے کے علاقے پر قبضے کے لیے تیزی سے استحصالی کارروائیوں کے قابل نہیں بنائے گا، کیونکہ یوکرینی افواج کو اُنہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو روسیوں کو کچھ تباہ شدہ پلوں سے رسد کی فراہمی میں درپیش تھیں، اور اس وجہ سے انہیں توپ خانے کی مدد حاصل نہ ہونے کا خطرہ لاحق ہوگا۔”

اس کے علاوہ یہ مسئلہ بھی ہے کہ آیا یوکرین کے پاس خرسون کے محاذ کے ساتھ ساتھ ڈونباس پر بھی حملے شروع کرنے اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے کافی فوج اور اضافی کمک موجود ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے پر عموماً سزا ملتی ہے، جیسا کہ روسیوں نے سیکھا ہے۔ کیا یوکرین بھی اِسی جال میں پھنس جائے گا؟

 

مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں۔

Advertisement

Next OPED