پَر پھیلاتی تاریکی
برسوں پہلے کسی کو بھی یہ احساس تک نہ تھا کہ ہم اپنی زندگی میں وقت کے درد کی عکاسی کرتے، خون میں ڈوبے ہوئے دن کاٹیں گے۔ اب ہم ایسے دن نہ صرف مسلسل کاٹ رہے ہیں، بلکہ ان کی تکلیف میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی جو بہتر وقت کی اُمید پیدا کر سکتی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم چہار اطراف سے درد اور اذیّت کی ناقابلِ تسخیر دیواروں میں گھرے ہیں اور ہمارے گرد تاریکی چھا رہی ہے۔
یہ واقعی ذلّت آمیز بات ہے کہ ثابت شدہ اور عادی مجرموں کا ایک ٹولہ بطور حکمران ملک پر مسلّط کر دیا گیا ہے اور رعایا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کوئی سوال پوچھے اور کوئی احتجاج کیے بنا اِن کی تعظیم میں سر جھکا لیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے ستاروں میں لکھا جا چکا ہو اور ہمیں اِس پر احتجاج کا حق بھی نہ ہو، آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا جائے، نظامِ انصاف نظریہء ضرورت کے تحت چلتا رہے، احتساب کے اداروں کو ناقابلِ تلافی لوٹ مار کو محفوظ بنانے کے لیے یرغمال بنا لیا جائے، ریاستی اداروں پر ثابت شدہ بدمعاش قابض ہو جائیں اور میڈیا کی جانب سے لکھے اور بولے جانے والے الفاظ معمولی فائدے کے لیے فروخت کر دیے جائیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تمام ریاست کو جرائم کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور کیا جا چکا ہے تاکہ وہ اپنی شر انگیزیاں دکھاتے پھریں۔
لوگ خوفزدہ ہیں اور اُن کا خوف واضح ہے جسے دیکھا جا سکتا ہے، محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ چیخنا چاہتے ہیں، وہ مجرموں اور غاصبوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عذاب کے اس غلاف کو اتار دینا چاہتے ہیں جسے اوڑھنے پر انہیں مجبور کر دیا گیا ہے۔ وہ غلامی اور چاکری کی روایت کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ناقابلِ تنسیخ حقوق کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں جن کی اُنہیں آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ وہ اپنی آزادی کے لیے لڑنا چاہتے ہیں جس کا وعدہ اُن سے ریاستِ پاکستان کے معرض وجود میں آنے پر کیا گیا تھا۔ اُن سے انصاف اور مساوات کا وعدہ بھی کیا گیا تھا جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اُن کا موروثی حق ہے۔ لیکن وہ ڈرتے ہیں، اُن کا خوف واضح ہے لیکن وہ اِس خوف کے باوجود لڑنا چاہتے ہیں، اُس جمود کے باوجود جو اُن کی زندگیوں پر مُسلّط کر دیا گیا ہے جبکہ اُن سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اپنی بقا کے لیے معمولی لقمے ڈھونڈتے رستے پہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ کیسی قابلِ ترس زندگی ہے! وہ کتنے لاعلاج روگ کا شکار ہیں! زندگی نامی یہ تکلیف دہ سفر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن چکا ہے۔ اسے ترک کرنا ہوگا، اسے دُور کرنا ہوگا۔ ایسے میں مجھے ٹی ایس ایلیئٹ اور ان کی کلاسک شاعری “دی بریئل آف دی ڈیڈ” (مُردوں کی تدفین) یاد آرہی ہے؛
What are the roots that clutch, what branches grow
Out of this stony rubbish? Son of man,
You cannot say, or guess, for you know only
A heap of broken images, where the sun beats,
And the dead tree gives no shelter, the cricket no relief,
And the dry stone no sound of water. Only
There is shadow under this red rock,
(Come in under the shadow of this red rock)،
And I will show you something different from either
Your shadow at morning striding behind you
Or your shadow at evening rising to meet you;
I will show you fear in a handful of dust.
ہم اِس موڑ پہ کیوں آئے ہیں؟ ہمیں یہاں کون لے کر آیا ہے؟ ہم سے مساوات اور برابری کی سرزمین کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم سے انصاف کی سرزمین کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم سے ذات پات، رنگ و نسل کی الجھنوں کے بغیر عقیدے کی آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم سے ایک آزاد خیال اور ترقّی پسند پاکستان کا وعدہ کیا گیا تھا: “آپ آزاد ہیں، آپ اِس ریاستِ پاکستان میں اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد یا کسی اور جگہ یا عبادت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو، اِس کا ریاستی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے”۔ (قائداعظم محمد علی جناح ؒ)
ہم سے شہریت کی برابری اور حقوق، مراعات اور ذمے داریوں کی برابری کا وعدہ کیا گیا تھا: “ہم اُن دنوں کی شروعات کر رہے ہیں جہاں کوئی امتیاز نہیں، ایک برادری اور دوسری برادری کے مابین کوئی امتیاز نہیں، ایک ذات یا مسلک اور دوسروں کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ ہم اِس بنیادی اُصول سے شروعات کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری اور مساوی شہری ہیں”۔
یہ قابلِ تعریف نظریات تھے جو اب اُن لوگوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں جو اِنہیں مُسلسل اور حقارت سے روند رہے ہیں۔ انسانی زندگی قدر، اہمیت اور مناسبت کے مقام سے گر چکی ہے۔ اِس سے ایک بے معنی اور قابلِ استعمال شے کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے جسے اُس وقت ختم کر دیا جائے جب اس کی مزید ضرورت نہ ہو۔ آپ محفوظ نہیں ہیں۔ آپ خوف کے عالم میں جیتے رہیں یہاں تک کہ اگر آپ کہیں اور جینے کے لیے ملک سے بھاگ جاتے ہیں تو بھی خطرہ منڈلاتا ہے۔ آپ ان لوگوں کی نظروں میں رہتے ہیں جو آپ کا پیچھا کر رہے ہیں اور جو آپ سے خوفزدہ ہیں، آپ کی ایمانداری، آپ کی دیانت، آپ کی ہمّت اور وطن سے آپ کی محبت اور وہ نظریات جو اِس کی تخلیق میں شامل ہیں، اب جا چکے ہیں، وہ اب متعلّقہ نہیں ہیں کیونکہ ہم پہ مجرموں کا ایک ٹولہ مسلّط کر دیا گیا ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا ہمیں جینے کا حق ہے اور ہمارا مقدّر، اگر ہے تو کیا ہوگا۔ انسانی زندگی کے لیے اِس سے زیادہ ظالمانہ اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ ہم اس زندگی کو جیتے ہیں، ہم اِس کا شکار ہیں۔ ہم اِس ذلّت کو ہر روز سہتے ہیں جب ہم سانس لیتے ہیں، جب ہماری رگوں میں خون دوڑتا ہے۔ ٹی ایس ایلیئٹ کی شاعری “دی بریئل آف دی ڈیڈ” (مُردوں کی تدفین) ایک بار پھر ذہن میں آتی ہے جس کی اختتامی سطریں کہتی ہیں؛
That corpse you planted last year in your garden,
Has it begun to sprout? Will it bloom this year?
Or has the sudden frost disturbed its bed?
Oh keep the Dog far hence, that’s friend to men,
Or with his nails he’ll dig it up again!
You! Hypocrite lecteur!—mon semblable,—mon frère!”
یہ غم و غصہ ہے ۔۔۔ ناانصافی کے خلاف اشتعال ہے ۔۔۔ جذبات ہیں ۔۔۔ اِنہیں مزید روکا نہیں جا سکتا۔ یہ پَر پھیلاتی تاریکی کے خاتمے کے لیے گلیوں اور سڑکوں پر پھیل رہا ہے۔ آزادی کی دعوت ایک پُرامن اِنقلاب میں ڈھل رہی ہے۔