حنان آر حسین

27th Nov, 2022. 09:00 am

تجارتی اتّحاد اور ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن

اے پی ای سی کی تجارتی پہچان کو عالمی اقتصادی بحالی میں تیزی لانے والے گروپ کے طور پر تسلیم کرنے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے

مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) کے وزراء اور رہنماؤں نے بنکاک میں ملاقات کی اور ایک مشترکا بیان جاری کیا جو ایشیا پیسفک خطے میں تین کلیدی ترجیحات کی مضبوطی پر مبنی ہے۔ ان میں تجارت اور سرمایہ کاری کی ترقّی، خطے کو “تمام جہتوں میں” مربُوط کرنا اور اے پی ای سی کو ’’متوازن، جامع اور پائیدار ترقّی‘‘ کی جانب بڑھانا شامل ہے۔ تجارتی اتّحاد اور علاقائی روابط میں بڑے اثر و رسوخ کے ساتھ ایشیا میں چند بہت ہی غالب گروپوں میں سے ایک کے طور پر، اے پی ای سی کی تجارتی پہچان کو عالمی اقتصادی بحالی میں تیزی لانے والے گروپ کے طور پر تسلیم کرنے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے جامع آزادانہ تجارت کو فروغ دینے کی خواہش ترقّی پذیر معیشتوں کے لیے صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ ٹھوس حوالہ جاتی نکات جیسا کہ ایشیا پیسیفک کے آزاد تجارتی علاقے (ایف ٹی اے) کی ترقّی پر بیجنگ روڈ میپ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ گروپنگ کی کورونا وبا کے بعد کی بحالی کی حکمتِ عملیاں اتّحاد کے لیے بڑی اہم ہیں۔ اس طرح کی تیزی ایسے وقت میں آئی ہے جب اے پی ای سی کے اہم رکن ممالک، خاص طور پر چین اور امریکا، بھی ایشیا پیسیفک میں اقتصادی استحکام کے اس احساس کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ یہ طویل عرصے سے متوقع تھی جس میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلّقات کے تحفّظ میں حالیہ سفارتی اتفاقِ رائے سے مدد ملی ہے۔

21 رکنی گروپ میں وسیع البنیاد شرکت کو ترجیح دیتے ہوئے آزادانہ تجارت کو غیر ضروری حفاظتی تحفّظات پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ گروپ آف سیون (جی 7) میں دیکھے جانے والے اتفاقِ رائے کی کچھ دیگر اقسام سے ایک قابلِ ستائش رخصتی ہے۔ یہ اے پی ای سی کی معیشتوں کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ خطے میں “ترقّی پر مرکوز ڈھانچہ جاتی اصلاحات” کے طور پر بیان کردہ اصلاحات کو پھلنے پھُولنے کی گنجائش فراہم کریں۔ ایشیا پیسیفک خطے کی سرمایہ کاری، پائیدار ٹیکنالوجیز، اور تجارت پر مبنی سلامتی کے لیے ایک برمحل پوزیشن کو دیکھتے ہوئے، تجارتی اتّحاد کی جانب پہلے رسائی ۔ پہلے ترقّی ممکنہ طور پر اے پی ای سی اور اس سے آگے فوائد کا باعث ہے۔

Advertisement

آزاد تجارت کی ان ترجیحات پر محدود توجہ ان کو حل کرنے کی بجائے معاشی بحالی کے مسائل کو بڑھا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشروں کی “مکمل صلاحیتوں کا ادراک” کرنے کے بارے میں رہنماؤں کا معاہدہ اقتصادی ترقّی کے لیے زیادہ جامع نقطہء نظر کی علامت ہے۔ اس حقیقت پر غور کریں کہ اے پی ای سی کے رہنماؤں نے اس بار یوکرین جنگ کے عالمی معیشت میں موجودہ کمزوریوں پر اثر انداز ہونے کے پیشِ نظر اس جنگ کے غیر معمولی اتفاق پر توجہ مرکوز کی۔ ان کمزوریوں میں ترقی پذیر دنیا کے موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں کی گونج بھی موجود ہے جیسے نمو میں رکاوٹیں، افراطِ زر کی شدت، فراہمیء رسد (سپلائی چین) میں رکاوٹیں، توانائی اور غذائی کمی میں اضافہ، نیز مالی استحکام کے بلند ہوتے خطرات وغیرہ۔ تمام ممالک نے مُتفقہ طور پر ان تمام عوامل کی درست شناخت کی۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ اے پی ای سی کی کوئی خواہش نہیں ہے کہ وہ خود کو سلامتی کے مسائل پر غور کرنے کے لیے کسی فورم کے طور پر کھڑا کرے جبکہ اس کا بنیادی مقصد تجارت، منڈیوں اور علاقائی اقتصادی تعاون کو بڑھانا ہے۔ اس وجہ سے حالیہ مذاکرات چہار فریقی سلامتی ڈائیلاگ (کواڈ) کی پسند سے ایک قابل قدر رخصتی کی نشاندہی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو مساوی سطح پر روک تھام اور اقتصادی ترغیبات کا استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس، یوکرین جنگ کی اقتصادی مطابقت کو اے پی ای سی کے ’’کُشادہ، مربُوط، مُتوازن‘‘ نظریے سے منسلک کر کے ایشیا پیسیفک خطے میں تعاون پر مبنی اقتصادی اتّحاد کا خیرمقدم کرنے کی وسیع خواہش رکھتی ہے۔

اے پی ای سی رہنماؤں کے اعلامیے 2022ء کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تقسیم کے وقت تجارتی رابطوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے عزم کے لیے بھی یاد رکھا جانا چاہیے۔ اعلامیے میں رہنماؤں نے کہا کہ “ہم تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے اور تیز رفتار ترقّی کے مواقع بڑھانے بشمول پورے خطے میں ڈیجیٹل سسٹمز اور ٹولز کی انٹرآپریبلٹی کو فروغ دینے میں ڈیجیٹل تبدیلی کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں”۔

اس تشریح کی عالمی خوبیاں ہیں۔ سب سے پہلی کہ یہ کوئی راز نہیں کہ ایشیا بھر کی منڈیوں کو جوڑنے میں ڈیجیٹل تبدیلی کا کردار تیزی سے واضح ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی سپورٹ کے فوائد کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن (آسیان) تک محسوس کیا گیا ہے جو کہ بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ نتیجہ خیز تجارتی اور سفارتی تعلّقات کے ہمراہ 10 رکنی جنوب مشرقی ایشیائی گروپ ہے۔ اس طرح اے پی ای سی کے ڈیجیٹل اکانومی کے روڈ میپ کو سامنے اور مرکز میں رکھنا خطے میں تاریخی طاقتوں کے لیے کردار ادا کرتا ہے۔ مزید تفصیل سے یہ اے پی ای سی کے لیے ڈیجیٹل انضمام کے ایک ایسے ماڈل میں ڈھلنا آسان بناتا ہے جو دنیا بھر میں کہیں بھی تجارت کے باعث قائم استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔ دھڑے بندیوں، نظریاتی گروہ بندیوں، اور عظیم طاقت کی دشمنی سے تیزی سے منقسم ہونے والی دنیا کو ایک ایسے فورم کی ضرورت ہے جو تعاون پر مبنی رجحانات کو ایک فاتحانہ تجارت اور اقتصادی رابطے کے اتفاق رائے سے منسلک کرے۔ تھائی لینڈ کی میزبانی میں ہونے والا اے پی ای سی اجلاس 2022ء اسی مقصد کی خوبیوں کو پورا کرتا ہے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ 2021ء میں اے پی ای سی خطے کی آبادی تقریباً 2 اعشاریہ 95 ارب تھی (عالمی آبادی کا 38%)، یہ ضروری ہے کہ “جدید اور جامع اقتصادی ترقی” پر اتفاقِ رائے کو اگلے سال تک طول دیا جائے۔ واشنگٹن اگلے سال اے پی ای سی کی میزبانی کے لیے تیار ہے اور اگر امریکا چین سے اپنے اقتصادی تعلّقات کو ذمے داری سے سنبھال سکتا ہے تو یہ ایشیا پیسیفک خطے اور دیگر طاقتوں کے مفادات کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ یہ واشنگٹن اور تجارتی شمولیت کے لیے اس کے عزم کے لیے ایک کلیدی امتحان ہوگا، اس لیے کہ اے پی ای سی عالمی سطح پر چین کے پُرامن عروج کے لیے واشنگٹن کی دانستہ مزاحمت کی توثیق کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی۔ بقائے باہمی ضروری ہے۔

تمام اراکین کے مطابق اس ہفتے بنکاک کا نقطہء نظر واضح ہے ۔۔ علاقائی معیشتوں کے اس 21 رکنی گروپ کی تجارتی انضمام کی ترجیحات وہیں رہنے دیں جہاں سے اِن کا تعلّق ہے۔

Advertisement

Next OPED