حمزہ حسین

05th Feb, 2023. 09:00 am

خُراسان میں سرگرم تعاقب کا مقدمہ

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھا کر پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اِس گھناؤنے اور غیر اخلاقی حملے کے نتیجے میں سوگواروں، عزیزوں، خاندان کے افراد اور رشتے داروں نے دیکھا کہ سو کے قریب نمازیوں کو دن دیہاڑے پولیس لائنز پشاور میں واقع ایک مسجد میں خودکش بم دھماکے میں بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔

سیاسی، علاقائی اور مذہبی گروہوں کی جانب سے اجتماعی غم و غصّے کا اظہار کیا گیا جو عظیم قومی عزم کا مظاہر ہے۔ قابلِ مذمت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو 2015ء میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر ہونے والے گھناؤنے حملے کے سبب دنیا بھر میں بدنامی ہوئی تھی، کے اِس وحشیانہ فعل کے پیچھے ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ تاہم عسکریت پسند گروہ نے اپنے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے اس کا الزام ایک الگ ہونے والے دھڑے کے کمانڈر پر لگا دیا۔ ایک بات واضح ہے۔ بہت ہو چکا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ملکی پالیسی ساز دہشت گردی کے مسئلے کو اٹھائیں اور اِسے مکمل طور پر اُکھاڑ پھینکیں۔

پشاور بم دھماکے نے ایک ناقابلِ تردید حقیقت کو آشکار کر دیا ہے کہ کابل کی طالبان حکومت اپنے انتہا پسندانہ رجحان اور توسیع پسندانہ ایجنڈے کے ساتھ ساتھ اپنے سہولت کاروں، معاونین، وابستگان اور اتحادیوں کے ہمراہ پاکستان کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ وفاقی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان 2022ء کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے مؤخر الذکر پاکستان پر حملے کے لیے افغانستان کے شورش زدہ صوبے خراسان میں اڈوں سے دوبارہ منظم ہوئی اور آپریشن کیا۔ ٹی ٹی پی کو استثنیٰ سے کام کرنے اور پاکستانی معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے والے اندھا دھند حملے کرنے کی اجازت کے ساتھ، تمام شراکت داروں کی جانب سے صفر برداشت (زیرو ٹالرنس) کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ افغان طالبان نے اپنی کارروائیوں اور قابلِ فہم تردید کے ذریعے یہ واضح کر دیا ہے کہ مری پراسس سے لے کر دوحا امن معاہدے تک کی متعدد امن کوششوں کے ساتھ انہیں امن کا شراکت دار نہیں سمجھا جا سکتا۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے اور کابل حکومت کی واضح بے حسی پر پاکستان کو 2023ء اور اس کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے آپشنز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسی ہی ایک فوجی حکمتِ عملی “سرگرم تعاقب (ہاٹ پرسیوٹ)” ہے جو فوج اور متاثرہ فریق کے ذریعے خطے میں مشتبہ دہشت گردوں کا براہِ راست اور فوری تعاقب کرتی ہے۔ اگرچہ اس نقطہء نظر سے افغانستان سے تعلّقات میں خرابی کا خطرہ موجود ہے، پاکستان کے پاس اس مسئلے کے منبع یعنی افغانستان کے صوبہ خراسان میں ٹی ٹی پی کی کمک، اڈے اور حمایتی جال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ طالبان کی حکومت بین الاقوامی سطح پر تنہا ہے، پاک فوج کی جانب سے جائز اہداف اور دہشت گردوں کا تعاقب کرنے پر کابل کی طرف سے کسی بھی طرح کی چیخ و پکار کو بین الاقوامی برادری باآسانی مسترد کر سکتی ہے۔

Advertisement

امریکا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک کی اکثریت نے طالبان حکومت کو انسانی حقوق کی پاسداری، خواتین کو تعلیم تک مساوی رسائی فراہم کرنے اور سخت سزائیں دینے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ نتیجتاً دہشت گردی پر پاک بھارت جائز تحفظات کو چھوڑ کر سنا جائے گا اور اس کی پیروی کی جانی چاہیے۔

سرگرم تعاقب کے معاملے کو اس بات سے تقویت ملی ہے کہ کس طرح ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان کے اندر سے کام کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے افغان طالبان کے سربراہ عبداللہ خان کی بیعت کی۔ اِس کے باوجود ایک ہی وقت میں، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا دعویٰ ہے کہ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ جبکہ ٹی ٹی پی پاکستانی ریاست کے خلاف لڑنے اور عبادت گاہوں میں معصوم شہریوں کے خلاف خودکش حملے کرنے پر یقین رکھتی ہے، افغان طالبان کا ایجنڈا غیر ملکی افواج کو بے دخل کرنے پر مرکوز ہے۔ اس کے باوجود، مؤخر الذکر سابق کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کر رہا ہے اور ٹی ٹی پی سے منسلک ہے، یہی وجہ ہے کہ حملے استثنیٰ کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ افغان طالبان حکمراں بھی اپنی سرزمین کو بین الاقوامی حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے اپنے عزم کا احترام نہیں کر رہے اور پاکستان میں ہونے والے حملوں پر آنکھیں بند کر لینا اس حقیقت کا ثبوت ہے۔

پشاور میں بڑے پیمانے پر شہادتیں امن کے لیے تباہی اور محض غیر انسانی ہے۔ اِس سے ملک کی مخدوش معاشی صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ نتیجتاً پاکستانی عوام اس شدت کے بار بار سانحات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دہشت گرد حملوں کی لاگت اربوں ڈالر کے برابر ہے اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے نرم رویہ صرف ملکی قرضوں، گرتی ہوئی شرحِ مبادلہ، آئی ایم ایف کی ساختی اصلاحات اور بڑھتی افراط زر سے متعلق موجودہ مسائل میں ہی اضافہ کرے گا۔ پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ایک اور مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور اندرون ملک بڑھتی بنیاد پرستی موجودہ دلدلوں کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔

تاہم خراسان میں سرگرم تعاقب کے اپنے خطرات ہیں۔ صوبہ خراسان میں داعش (اسلامک اسٹیٹ) کی فعال موجودگی ہے اور وہ نہ صرف پاکستان کے خلاف بلکہ افغانستان میں بھی عالمی عزائم کے ساتھ بے رحمانہ حملے کر رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بے رحم دہشت گرد تنظیموں میں سے ایک کے خلاف پاکستانی فوجیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا انتخاب پالیسی سازوں کو کرنا ہوگا۔ مذموم دھماکے کے فوراً بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جس میں ملک گیر آپریشن شروع کرنے کے امکان کا اشارہ دیا گیا۔ تاہم ٹی ٹی پی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے غیر ملکی اختیارات کی ضرورت ہے۔

متحرّک طریقوں کے ساتھ ساتھ غیر متحرّک حکمتِ عملیوں کو اپنانا بھی ضروری ہے۔ دسمبر 2014ء میں حکومتِ پاکستان نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا تھا۔ ریاستِ پاکستان کی جانب سے اس سے قبل جو غیرامتیازی پالیسی اختیار کی گئی تھی وہ ماضی میں گم ہو چکی ہے۔ اسے مکمل طور پر دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم ہنگامی حالت میں ہے اور کسی بھی معاملے میں سستی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

لہٰذا پاکستان کے پاس پشاور قتلِ عام کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے سرگرم تعاقب کا آپشن برقرار ہے۔

Advertisement

Next OPED